"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ہم صوفیوں کو کس طرح دعوت دیں کہ صوفی لوگ مسلک حق قبول کریں؟ مزید یہ بھی بتلا دیں کہ وہ کونسی ایسی آیات اور احادیث ہیں جو ہمیں انہیں دعوت دینے کیلئے فائدہ دے سکتی ہوں؟
الحمد للہ.
یہ بہت اچھا سوال ہے، اور یہ سائل کی دانشمندی، اور مسلمانوں کے بارے میں شفقت کی واضح دلیل ہے، کیونکہ ہمیں منحرف لوگوں کو سیدھے راستے پر بلانے کیلئے وسائل بتلانے والوں کی بہت ہی زیادہ ضرورت ہے۔
لفظ "صوفی" کے تحت متعدد انواع و اقسام کے عقائد و مناہج شامل ہیں، تاہم ہمارے زمانے کے اکثر صوفی صحیح راستے سے گمراہ ہوچکے ہیں، اور ان میں اعتقادی ، عملی، اور سلوکی بدعات مختلف انداز سے داخل ہو چکی ہیں، سب صوفی لوگ صراط مستقیم سے یکساں دور نہیں ہیں، بلکہ ان کی صراطِ مستقیم سے دوری بھی مختلف درجہ بندی رکھتی ہے۔
تاہم ان کی اصلاح جسمانی مرض میں مبتلا شخص کی اصلاح و علاج سے سے زیادہ اہم ہے، ہم آپ کے سامنے درج ذیل نقاط میں اسلوب دعوت کی طرف اشارہ کرینگے۔
1- ان حضرات کو وہی شخص دعوت دے جو کافی وافی شرعی علم رکھتا ہو، خصوصاً صوفیوں کے عقائد واحوال کے بارے میں ؛ کیونکہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ داعی کسی ایسے صوفی نظریہ کا انکار کردے جوحقیقت میں حق ہو، یا کسی باطل بات کا قائل ہو جائے، اور ویسے بھی پختہ علم انسان کو اللہ کے حکم سے پھسلنے ، اور صوفیوں کے شبہات سے متاثر نہیں ہونے دے گا۔
2- کافی وافی علم کے ساتھ ساتھ دعوت دینے والے کا اعلی اخلاقی اقدار سے مزین ہونا بھی از بس ضروری ہے، اس سے مخالف کے دل نرم ہوگا، اور ہدایت کیلئے مکمل شوق و جذبہ بھی پیدا ہو گا۔
3- اگر کسی مصلح اور داعی میں یہ صفات جمع ہوں ، اور انہیں دعوت دینے میں کامیاب بھی رہے ؛ تب بھی ان کیلئے بھلائی کی دعا کرے، سخت الفاظ مت بولے، اور ان کے ساتھ تناؤ والی فضا مت پیدا کرے، بلکہ پیار ، محبت، اور نرمی کیساتھ پیش آئے، انہیں جہاں تک میسر ہو سکے تحائف اور عزت و اکرام سے بھی نوازے۔
4- انہیں دعوت دینے کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ: ان کی مخصوص علامتوں اور مشایخ کے بارے میں طعن و تشنیع مت کرے، بلکہ یہ طریقہ اختیار کرے کہ ان کے سامنے انبیاء اور رسولوں کی خوب مدح سرائی کرے، صحابہ اور تابعین کے بارے میں تعریفی کلمات کہے، ائمہ اربعہ اور اس امت کے سلف صالحین میں سے کبار علمائے کرام کے فضائل و مناقب بیان کرے، بلکہ اُنہی کے ایسے ائمہ کا ذکر کرے جن کا منہج درست تھا، اور لوگوں میں ان کی شہرت بھی صوفیوں کی نسبت سے ہو، مثلاً: جنید بغدادی، ابراہیم ادہم، عبد القادر جیلانی وغیرہ رحمہم اللہ جمیعاً، آپ کے اس انداز سے مخاطب کے ذہن میں ایسے لوگوں کے بارے میں معلومات جمع ہونگی جن کی فضیلت، اعتدال پسندی سب کے ہاں متفقہ ہے، اور یہی لوگ داعی اور مخاطب کے درمیان قدر مشترک کا کردار ادا کرینگے، پھر مستقبل میں ان کے مفید اقوال کی طرف رجوع سود مند ثابت ہوگا، ایسے ہی انکے احوال بھی مخاطب کو نبوی راستے کی طرف بلانے میں معاون ثابت ہونگے، جس کی وجہ سے مخاطب قولی اور عملی ہر اعتبار سے ثابت قدم ہو سکتا ہے۔
5- داعی کیلئے بہتر یہ ہے کہ صوفیوں کو دعوت دینے سے پہلے دین اسلام کے کلی قواعد اور اہم و جلی عقائد پیش کرے، اور فوری طور پر صوفیوں کے عقائد پر تنقید مت کرے، کیونکہ یہ کام قواعد کلی خود کر دینگے، اس لئے کہ سچی اور اصولی باتیں باطل و جہالت کو پاش پاش کر دیتے ہیں، چنانچہ جس قدر حق بات کے قواعد مضبوط ہوئے، اور شرعی علم جس قدر پختہ ہوا اسی مقدار میں باطل و گمراہی سے باہر آنا آسان ہو گا۔
6- ہم فاضل داعی افراد سے یہ بھی امید رکھیں گے کہ ان صوفیوں کے نمائندوں سامنے اعتراض کا کوئی راستہ کھلا نہ چھوڑیں، اس کیلئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر، آپکی سیرت، و شمائل کا خوب تذکرہ کریں؛ کیونکہ اکثر اوقات یہ لوگ علمائے اہل السنہ و الجماعہ پر اعتراض لگاتے ہیں کہ یہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں کرتے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھی نہیں بھیجتے! حالانکہ یہ سفید جھوٹ ہے لیکن عام طور پر صوفیوں کے ہاں سچ بھی ہے، اس لئے اس سفید جھوٹ کا پول عملی طور پر کھولا جائے۔
7- اسی طرح ہم داعی افراد کو دعوت دیتے ہیں کہ اصلاح قلب کیلئے کثرت سے گفتگو کریں -حتی کہ صوفیوں کو دعوت دینے سے ہٹ کر عام گفتگو میں بھی- احوال دل، اور دل کو موم بنانے والی گفتگو کریں، حقیقت بات ہے کہ ہمیں قرآن و سنت اور سلف صالحین کے شہ پاروں کے ذریعے دلوں کو نرم کرنے کی کس قدر ضرورت ہے! اہل بدعت نے اسی کو استعمال کیا، اور عوام الناس کے دلوں میں محبت ڈال کر ان کے دلوں کو چھین لیا، حتی کہ لوگوں کے دل ان سے منسلک ہو گئے ، اور صوفی شخصیات کیلئے انہوں نے تن من سب کچھ لٹا دیا۔
8- اللہ تعالی نے موجودہ دور میں متعدد اہل السنہ و الجماعہ کے فاضل علمائے کرام کو میڈیا کے ذریعے لوگوں کے سامنے آنے کا موقع دیا ہے،اس طرح سے ان کی محبت لوگوں کے دلوں میں آویزاں ہو چکی ہے، اور ان کے دل انکے ساتھ بندھے ہوئے ہیں، لوگوں کے اس تعلق کو ان صوفیوں کے عقائد اور نظریات ان تک پہنچانے کیلئے استعمال کیا جائے، تصوف سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اپنی کیسٹس، اور کتب پہنچائی جائیں، یہ طریقہ دعوت کے میدان میں موجود ہمارے بھائیوں کیلئے آسان اور میسر ہے، اور اس کا فائدہ بھی بہت جلد حاصل ہوگا۔
9- دعوتی کام کرنے والے افراد کو چاہیے کہ ان صوفیوں کو ایسی کتاب پڑھنے کیلئے مت دیں جن میں صوفیوں کے ائمہ یا منہج پر صراحتاطعن و تشنیع کی گئی ہو، یا ان کی -خود ساختہ-نامور شخصیات کا مذاق اڑایا گیا ہو، کیونکہ اس کا منفی اثر پڑے گا، اور وہ حق بات سننے سے یا مباحثہ کرنے سے رک جائیں گے، اس لئے کہ آپ نے اس کے محبوب کے خلاف بات کی ہے۔
اور اگر داعی کو مخاطب کے بارے میں یہ اطمینان ہو کہ اب یہ حق بات قبول کریگا، چاہے کتنی ہی کڑوی کیوں نہ ہو، پھر اسے ایسی کتاب دے جس میں حق سے منحرف صوفی عقائد کے بارے میں تفصیلی گفتگو ہو، اور انہیں ایسی کیسٹس دے جن میں صریح دلائل کیساتھ حق بیان کیا گیا ہے۔
10- اخلاص، سچے دل کے ساتھ داعی کو اُن کے لئے دعائیں بھی کرنی چاہییں، کہ اللہ تعالی گمراہ مسلمانوں کو ہدایت سے نوازے، ساتھ ساتھ بدعتی لوگوں کو دعوت دینے کیلئے اہل علم سے مشاورت جاری رکھے، اور ہمیشہ ان کے ساتھ رابطے میں رہے، تا کہ ان میں سے کوئی صرف ایک دو مرتبہ دعوت سے کسی گھمنڈ کا شکار نہ ہو ، اور اس طرح سےوہ خود پسندی جیسی بیماری میں مبتلا ہو کر دعوت کے فوائد کوملیا میٹ کر دے ، یا یہ کہ رابطہ کے انقطاع کے باعث وہ اپنی بنیادوں پہ دوبارہ کھڑا ہو جائے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی آپکو لوگوں کی اصلاح کرنے کی توفیق دے، اور آپ کے معاملات آسان فرمائے، اور آپ لوگوں سے اِن لوگوں کے شر، تکلیف اور ضرر سے دور رکھ سکیں۔
ہم آپکو شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کا یہ خطاب ضرور سننے کی تلقین کرتے ہیں، خطاب کا عنوان ہے: " الدعوة إلى الله وأسلوبها المشروع "
اور مزید کیلئے آپ سوال نمبر: (118693) کا جواب ملاحظہ کریں، کیونکہ اس میں صوفی سلسلوں کے بارے میں ایک مسلمان کے موقف کا ذکر ہے۔
واللہ اعلم.