"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اگر شرعى اركان كے ساتھ نكاح مكمل نہ ہوا ہواور ابتدائى طور پر مشروع منگنى ہى ہو، پھر منگنى كرنے والا شخص عقد نكاح سے قبل ہى منگنى ختم كرنے كا فيصلہ كرے تو اس نے جو مہر ادا كيا ہو وہ سارا واپس لينے كا حق ركھتا ہے، چاہے منگنى آدمى نے خود ختم كى ہو، يا پھر لڑكى كى جانب سے ختم ہوئى ہو، اس ميں كسى قسم كا كوئى اختلاف نہيں ہے.
كيونكہ مہر كے متعلق احكام تو نكاح كے ساتھ مربوط ہيں، چاہے عقد نكاح كے بعد دخول و رخصتى ہوئى ہو يا پھر عقد نكاح كے بعد رخصتى نہ ہوئى ہو تو دونوں حالتوں ميں عليحدگى ہو جانے كى صورت ميں احكام مختلف ہيں، لہذا مہر كا تعلق تو عقد نكاح سے ہے نہ كہ صرف منگنى سے.
ابن عابدين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس نے جو مہر بھيجا بعينہ وہ واپس كيا جائيگا چاہے استعمال سے اس ميں تبديلى بھى ہو چكى ہو، يا پھر اگر ضائع ہو چكا ہو تو اس كى قيمت ادا كى جائيگى؛ كيونكہ معاوضہ تو پورا نہيں ہوا، اس ليے واپس لينا جائز ٹھرا " انتہى
ديكھيں رد المختار ( 3 / 153 ).
اور ابن عابدين نے ہى بعض حنقى كتب سے فتوى نقل كرتے ہوئے كہا ہے:
" منگنى كے بعد جو مہر بھيجا وہ موجود ہو يا ضائع ہو چكا ہو تو وہ واپس كيا جائيگا " انتہى
ديكھيں: رد المختار ( 4 / 574 ).
ابن حجر حيتمى رحمہ اللہ كا قول بھى اسى معنى ميں ہے:
" كسى عورت سے منگنى كى اور پھر عقد نكاح سے قبل بغير كسى الفاظ كے اس كى جانب مال بھيجا يا اسے ديا، اس سے اس كى معاونت مقصود نہ تھى، پھر عورت يا مرد كى جانب سے منگنى ختم كر كے اعراض كر ليا گيا تو جو عورت كو ديا اور پہنچا تھا وہ واپس ہوگا... كيونكہ اس نے تو وہ مال اسے نكاح كى غرض سے ديا تھا، اور نكاح نہيں ہوا " انتہى
ديكھيں: تحفۃ المحتاج ( 7 / 421 ).
شيخ حسان ابو عرقوب " منگنى ختم كرنے " كے عنوان ميں رقمطراز ہيں:
" جب عقد نكاح سے قبل منگيتر نے اپنى قدم كو مہر پيش كر ديا اور پھر كسى جانب سے بھى منگنى ختم كر دى گئى يا كوئى فوت ہوگيا تو مہر مقبوض كا شرعى حكم كيا ہو گا ؟
احناف نے بيان كيا ہے كہ منگنى كرنے والے نے جو چيز مہر كے حساب ميں عورت كو دى ہے چاہے وہ بعينہ يا عوض ہو تو واپس دى جائيگى اور اگر ضائع ہو چكى ہو تو اس كا معاوضہ ديا جائيگا.
كسى بھى مذہب ميں مجھے اس كى كوئى نص نہيں ملى بلكہ ميں نے سب مذاہب نے جو مہر كى تعريف ميں كلام كى ہے اس پر غور و فكر كرنے كے بعد يہى سمجھا ہے، اس مسئلہ ميں ان كے ہاں حنفيہ كے حكم سے مخالف نہيں ہونا چاہيے.
چنانچہ مالكيہ كے ہاں مہر عقد نكاح كے اركان ميں شامل ہوتا ہے، اور منگيتر لڑكى اور لڑكے كے مابين كوئى عقد نكاح نہيں اس ليے آدھا مہر تو اسے نكاح كى صورت ميں ہى حاصل ہوگا، اور پورا نكاح اسے دخول و رخصتى كى حالت ميں ملتا ہے، وگرنہ يہ لوگوں كا باطل طريقہ سے مال كھانے كے مترادف ہوگا.
اس ليے دونوں ميں سے كى كا منگنى ختم كرنا اور عقد نكاح نہ ہونے سے منگيتر مہر كى مستحق نہيں ٹھرتى اس ليے اسے وہ مہر اپنے منگيتر كو واپس كرنا چاہيے.
اور ہم ديكھتے ہيں كہ شافعى حضرات نے مہر كى تعريف كرتے ہوئے كہا ہے:
" وہ جو نكاح يا وطئ يا زبردستى و قہر كے ساتھ بضع ضائع ہونے سے واجب ہوتا ہو مثلا رجوع و شہود "
يہ وہ حالات ہيں جن ميں مہر واجب ہوتا ہے، اور منگنى ان ميں شامل نہيں، اس ليے عورت كے ليے لينا حلال نہيں بلكہ اسے واپس كرنا چاہيے.
حنابلہ كے ہاں مہر يہ ہے كہ:
" نكاح ميں مقرر كردہ عوض ہے "
منگيتر لڑكے اور لڑكى كے مابين نكاح نہيں ہوا جو پورا يا آدھا مہر واجب كرتا ہو، اس طرح سب فقھاء كى آراء ايك اہم نقطہ پر مل جاتى ہيں وہ يہ كہ:
" مہر عقد نكاح كى حالت ميں ہى واجب ہوتا ہے، اور منگنى كى حالت ميں عقد نكاح نہيں پايا جاتا، اس ليے كسى بھى جانب سے منگنى ختم كر دينے كے بعد عورت كا مہر ركھنا جائز نہيں، بغير كسى مشروع سبب كے مال ركھا گيا ہے، اس ليے وہ واپس كرنا ہو گا " انتہى
درج ذيل لنك ديكھيں:
اور منگنى ختم كرنے كى صورت ميں ہديہ اور تحفہ جات كا حكم معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 101859 ) اور ( 149744 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .