اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

شادى ميں حيوانيت جيسے كام ہونے كى بنا پر شادى نہ كرنے كا سوچنا

12-11-2013

سوال 169724

ميں شادى نہ كرنے كا سوچ رہا ہوں كيونكہ ميرى رائے كے مطابق جو لوگ شادى كرتے ہيں وہ جانوروں كى مانند ہو جاتے ہيں، اللہ تعالى آپ كو عزت سے نوازے وہ عام طور پر جانور جيسے افعال كرنے لگتے ہيں، جانور كا تو كوئى اخلاق نہيں ہوتا، يہ لوگ بھى ان سے كوئى مختلف نہيں، كيا ايسا نہيں ہے ؟
مجھے اس سلسلہ ميں معلومات فراہم كريں، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

شادى اللہ سبحانہ و تعالى كى عظيم نعمتوں ميں سے ايك نعمت اور ايك فطرتى چيز ہے جس پر اللہ سبحانہ و تعالى نے لوگوں كو پيدا كيا ہے، اور پھر يہ تو انبياء و رسولوں كى سنت اور نسل كى بقاء كا وسيلہ اور ذريعہ اور زمين كى آبادى بھى اسى طرح ممكن ہے، اور مكلف كردہ احكام پر عمل بھى اسى كے ساتھ ممكن ہوگا.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اس كى نشانيوں ميں يہ بھى شامل ہے كہ اس اللہ نے تمہارى جنس سے تمہارى بيويوں كو پيدا فرمايا تا كہ تم اس سے سكون حاصل كرو، اس نے تمہارے درميان محبت اور ہمدردى قائم كر دى، يقينا غوروفكر كرنے والوں كے ليے اس ميں بہت سى نشانياں ہيں الروم ( 21 ).

امام بخارى اور مسلم رحمہما اللہ نے انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ:

" تين شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ازواج مطہرات كے پاس گھر آئے وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى عبادت كے متعلق دريافت كر رہے تھے، جب ازواج مطہرات نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى عبادت كے بارہ ميں بتايا تو گويا كہ انہوں نے اسے كم سجمھا اور كہنے لگے:

كہاں ہم اور كہاں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ؟ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے تو اللہ عزوجل نے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف كر ديے ہيں.

ان ميں سے ايك شخص كہنے لگا: ميں ہميشہ سارى رات نماز ہى پڑھتا رہوں گا، اور دوسرا كہنے لگا: ميں سارا سال روزہ ہى ركھوں گا اور افطار ہى نہيں كرونگا، اور تيسرا كہنے لگا: ميں عورتوں سے عليحدگى اختيار كرتے ہوئے كبھى شادى نہيں كرونگا.

چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ان كے پاس آئے اور فرمايا:

" كيا تم ہى ہو جنہوں نے يہ يہ باتيں كى ہيں ؟

اللہ كى قسم يقينا ميں تم ميں سب سے زيادہ خشيت الہى ركھنے والا اور تم ميں سب سے زيادہ تقوى ركھنے والا ہوں، ليكن ميں روزے ركھتا بھى ہوں اور چھوڑتا بھى ہوں، اور ميں نماز بھى پڑھتا ہوں اور سوتا بھى ہوں، اور ميں نے عورتوں سے شادياں بھى كى ہيں، چنانچہ جو كوئى بھى ميرى سنت اور ميرے طريقہ سے انحراف اور بے رغبتى كريگا وہ مجھ ميں سے نہيں ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5063 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1401 ).

اور مرد فطرتى طور پر عورت كى طرف مائل ہوتا ہے، اور اسى طرح عورت بھى فطرتى طور پر مرد كى طرف مائل ہوتى ہے، اور اس فطرتى طريقہ كو اپنايا اسى صورت ميں جا سكتا ہے كہ نكاح كيا جائے اس پر عمل كرنے كے ليے يہى ايك صحيح راہ ہے.

اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے نفسوں اس رغبت كو عظيم حكمتوں كى بنا پر وديعت كيا ہے، جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے كہ اس ميں نسل كى بقا اور زمين كى آبادكارى ہے، اور انس و محبت اور راحت اور لذت كا ثبوت ہے.

جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" دنيا ايك فائدہ ہے، اور دنيا كا سب سے بہتر اور اچھا فائدہ نيك و صالح عورت ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1467 ).

اور ان حكمتوں ميں اجروثواب كا حصول بھى شامل ہے، جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اور تم ميں سے ايك كى شرمگاہ ميں صدقہ ہے، صحابہ كرام نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا ہم ميں سے كوئى اپنى شہوت پورى كرے تو اسے اس ميں بھى اجروثواب حاصل ہوگا؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مجھے يہ بتاؤ كہ اگر وہ اسے حرام ميں استعمال كرے تو كيا اس كو گناہ ہوگا؟

تو اسى طرح جب وہ حلال ميں استعمال كرےگا تو اسے اجروثواب حاصل ہوگا "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1006 ).

اور يہ كہ حيوانات و جانور بھى شادى و مباشرت كرتے ہيں، اس كا يہ معنى نہيں كہ شادى كرنا نقص اور عيب شمار ہوتا ہے، اور مباشرت و معاشرت عيب يا پھر قابل مذمت عمل كہلاتا ہے.

كيونكہ جانور اور حيوانات بھى تو كھاتے پيتے اور سوتے ہيں، كيا كوئى يہ كہتا ہے كہ كھانا پينا اور سونا قبيح اور گندى عادت ہے كيونكہ يہ حيوان كى مشابہت ہے!

بلكہ زندہ رہنے يعنى زندگى بھى حيوان اور انسان ميں مشترك ہے اور زندہ رہنے والوں كا شادى كرنا اس بات كى دليل ہے كہ يہ زندگى كا ايك طريقہ ہے، اور ايسى فطرت ہے جس سے بے رغبتى وہى كر سكتا ہے جو شاذ قسم كا شخص ہو.

ليكن جو لوگ بداخلاق ہيں وہ تو وہى ہيں جو اللہ سبحانہ و تعالى كى حدود سے تجاوز كرتے ہيں، اور اپنى شہوت حرام كاموں ميں پورى كرتے ہيں، ان دونوں ميں كوئى مقارنہ اور موازنہ نہيں ہے كيونكہ شادى كرنے والا شخص كو حلال كام كر رہا ہے اور دوسرا شخص اپنى شہوت حرام ميں پورى كر رہا ہے، كہ شادى كرنے والے نے اللہ كے كلمہ كے ساتھ بيوى كى شرمگاہ حلال كى، اور وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت پر شادى كر رہا ہے.

اور اگر كوئى شخص ضرورت نہ ہونے كى بنا پر يا پھر اس ليے كہ وہ شادى سے اہم كام ميں مشغول ہے تو اس كے ليے اس صورت ميں نہ تو كوئى گناہ ہوگا اور نہ ہى حرج.

ليكن گناہ اور حرج اس شخص كے ليے ہے جو اللہ سبحانہ و تعالى كى حلال كردہ چيز كو حرام كرتا ہے، اور جس چيز كا اللہ سبحانہ و تعالى نے اسے حكم ديا ہے وہ اس كى مذمت كرتا پھرتا ہے، اور جس كام كو سارى مخلوق سے اعلى اور ارفع شخص نے سرانجام ديا اس كے بارہ ميں غلط گمان ركھتا پھرتا ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

البتہ تحقيق ہم نے آپ سے پہلے بھى بہت سارے رسول مبعوث كيے، اور ہم نے ان كى بيوياں اور اولاد بھى بنائى، كسى رسول كے شايان شان نہيں كہ وہ اللہ كے حكم كے بغير كوئى نشانى لائے، ہر ايك كے ليے ايك وقت مقرر ہے الرعد ( 38 ).

اس ليے آپ اعوذ باللہ من الشيطان الرجيم پڑھ كر شيطان سے اللہ كى پناہ ميں آئيں، اور اس طرح كى سوچ اور افكار چھوڑ ديں، اور اپنے آپ كو ايك مسلمان گھرانہ تيار كرنے كے ليے تيار كريں، اور نيك و صالح اولاد پيدا كرنے كے ليے تيار ہو جائيں، اور اپنے ليے وہ اختيار كريں جو اللہ سبحانہ و تعالى نے سب سے بہتر مخلوق محمد صلى اللہ عليہ وسلم كے ليے اختيار كيا تھا، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے شادى كى اور آپ كى اولاد بھى تھى، اور پھر آپ نے شادى كرنے كى رغبت و ترغيب بھى دلائى ہے.

واللہ اعلم .

عقد نکاح
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔