"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
كيا بيوى كے ليے خلع طلب كرنا ممكن ہے چاہے خاوند موافق نہ بھى ہو، كيا آپ اس كے كچھ اسباب ذكر كر سكتے ہيں ؟
الحمد للہ.
يہ سوال ميں نے اپنے استاد اور شيخ جناب عبد اللہ بن عبد الرحمن بن جبرين كے سامنے پيش كيا ت وانہوں نے مجھے درج ذيل جواب ديا:
اول:
جب عورت اپنے خاوند كا اخلاق پسند نہ كرتى ہو، مثلا خاوند ميں شدت و سختى پائى جاتى ہو اور حدت ہو اور وہ جلد متاثر ہو جاتا ہو، اور كثرت غضب والا ہو، اور چھوٹى سى بات پر تنقيد كرنےلگے، اور ادنى سى غلطى پر سزا دينے لگے تو اس عورت كو خلع لينے كا حق حاصل ہے.
دوم:
جب عورت اپنے خاوند كى خلقت ناپسند كرتى ہو يعنى اس ميں كوئى پيدائشى عيب اور بد صورتى ہو، يا حواس ميں نقص پايا جائے تو عورت كو خلع حاصل كرنے كا حق حاصل ہے.
سوم:
اگر خاوند ناقص دين ہو يعنى نماز ترك كرتا ہو، يا پھر نماز باجماعت ادا كرنے سے سستى كرتا ہو، يا پھر رمضان المبارك ميں بغير كسى عذر كے روزہ نہ ركھے، يا حرام كاموں ميں جاتا ہو مثلا زنا اور شراب نوشى اور گانے بجانے كى محفل وغيرہ ميں جاتا ہو تو بھى عورت كو خلع طلب كرنے كا حق حاصل ہے.
چہارم:
جب خاوند اپنى بيوى كو اخراجات نہ دے يا لباس نہ دے يا ضروريات كى اشياء نہ ديتا ہو اور خاوند يہ اشياء دينے پر قادر بھى ہو تو عورت كو خلع طلب كرنے كا حق حاصل ہے.
پنجم:
جب بيوى كو عمومى اور عادت والا حق معاشرت نہ ديتا ہو جس ميں بيوى كو عفت حاصل ہو، يعنى خاوند وطئ كرنے پر قادر نہ ہو اور اس ميں عيب پايا جائے، يا پھر وہ بيوى كو نہ چاہتا ہو يا وہ كسى دوسرى كى طرف مائل ہو اور اس سے ركا رہے، يا وہ بيويوں كے مابين مبيت يعنى رات بسر كرنے ميں عدل نہ كرتا ہو تو عورت كو خلع طلب كرنے كا حق حاصل ہے " .