اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

اگر كسى ميت كى نماز جنازہ ادا نہ ہوئى ہو تو اس كا حكم

27-02-2007

سوال 20472

ميرے سسر بيس برس قبل فوت ہوئے تھے اور ان كى نماز جنازہ كسى نے بھى ادا نہيں كى، كيا اس سلسلے ميں ہم كچھ كر سكتے ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جب يہ شخص مسلمان تھا اور كسى نے بھى اس كى نماز جنازہ ادا نہيں كى تو اب اس كى نماز جنازہ ادا كرنا ضرورى اور واجب ہے، يا تو اس كى قبر پر جا كر نماز جنازہ ادا كى جائے، ليكن اس كى قبر پر جا كر نماز جنازہ صرف مرد ہى ادا كر سكتے ہيں، اس ليے ايك يا اس سے زيادہ مرد جا كر اس كى قبر پر نماز جنازہ ادا كر ليں، يا پھر اس كى غائبانہ نماز جنازہ ادا كى جائے ـ اور اس ميں مرد و عورت سب شريك ہو سكتے ہيں ـ غائبانہ نماز جنازہ كہيں بھى ادا ہو سكتى ہے، چاہے وہ مسجد ميں يا پھر گھر ميں ہى صفيں بنا كر نماز جنازہ ادا كريں گويا كہ جنازہ ان كے سامنے ركھا ہے.

يہ اس ليے كہ ميت كا نماز جنازہ ادا كرنا فرض ہے، اس كى دليل صحيح بخارى اور صحيح مسلم كى درج ذيل حديث ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس فوت شدہ مقروض شخص كو لايا جاتا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم دريافت كرتے:

كيا اس نے قرض اتارنے كے ليے كچھ چھوڑا ہے ؟

اگر تو اس نے قرض كى ادائيگى كے ليے كچھ چھوڑا ہوتا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس كى نماز جنازہ ادا فرما ديتے، وگرنہ آپ فرماتے: اپنے ساتھى كى نماز جنازہ تم خود ہى ادا كرو، اور جب اللہ نے انہيں بہت سى فتوحات سے نواز ديا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ميں مؤمنوں كى جانوں سے ان كے ليے زيادہ اولى ہوں تو جو شخص بھى مقروض حالت ميں فوت ہو جائے تو اس كا قرض ميں ادا كرونگا، اور جو شخص اپنے پيچھے مال ترك كرے وہ اس كے وارثوں كا ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2176 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1619 ).

ليكن يہ فرض كفايہ ميں شامل ہوتا ہے كہ جب كچھ لوگ ادائيگى كر ديں تو باقى مسلمانوں سے ساقط ہو جائيگا.

بخارى اور مسلم كى حديث سے ثابت ہے كہ ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ايك سياہ رنگ كا مرد يا عورت مسجد كى صفائى كيا كرتا تھا تو وہ فوت ہو گيا، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو اس كى موت كا علم نہ ہوا، ايك روز نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كا ذكر كرتے ہوئے فرمايا: اس انسان نے كو كيا ہوا ہے ؟

تو صحابہ كرام نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم وہ تو فوت ہو گيا ہے.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے: تم نے مجھے كيوں نہيں بتايا ؟

تو صحابہ كرام نے عرض كيا: وہ اس اس طرح تھا ـ يعنى اس كا قصہ ـ راوى كہتے ہيں: انہوں نے اس كے معاملہ كو حقير جانا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اچھا مجھے اس كى قبر كا بتاؤ، تو صحابہ نے اس كى قبر كا بتايا اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس كى قبر پر آئے اور نماز جنازہ ادا كى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1337 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 956 ).

تو يہ حديث ميت كو دفن كرنے كے بعد قبر پر اس كى نماز جنازہ ادا كرنے كى دليل ہے.

اور بخارى و مسلم نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ جس روز نجاشى فوت ہوا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كى موت كى خبر دى اور انہيں ليكر جنازگاہ گئے اور ان كے ساتھ صفيں بنا كر چار تكبير كہہ كر نماز جنازہ ادا كى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1333 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 951)

تو يہ حديث غائبانہ نماز جنازہ كى دليل ہے، اور بعض علماء كرام نے اس حديث كو اس كے ساتھ مخصوص كيا ہے جس كى نماز جنازہ ادا نہ كى گئى ہو، اور كچھ دوسرے علماء كہتے ہيں كہ يہ اہل علم و فضل اور شان و مرتبہ والے افراد كے ساتھ خاص ہے.

سابقہ مجموعى نصوص اس چيز كا فائدہ ديتى ہيں جو جواب كى ابتدا ميں بيان كيا گيا ہے، اور اہل علم نے بيان كيا ہے كہ:

اگر ميت دفن كر دى جائے اور اس كا نماز جنازہ ادا نہ كيا گيا ہو تو اسے دفن كرنے كے بعد اس كى نماز جنازہ ادا كى جائيگى، شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر تو اس كى نماز جنازہ ادا ہى نہ كى گئى ہو تو ہم اس كى نماز جنازہ ادا كرينگے چاہے كئى برس بعد ہى "

ديكھيں: الشرح الممتع ( 5 / 440 ).

مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ميرا ايك چھ ماہ كا بچہ فوت ہوگيا، اور ميں نے غلطى سے اسے قبرستان لے جا كر بغير نماز جنازہ ادا كيے ہى دفن كر ديا، يہ علم ميں رہے كہ مجھے اس قبر كا بھى علم نہيں رہا جہاں ميں نے بچہ دفن كيا ہے، كيا كوئى ايسا صدقہ و خيرات ہے جو اس كى نماز جنازہ يا كوئى اور عمل ايسا ہو جو اس كى نماز جنازہ سے كفائت كر جائے ؟

كميٹى كا جواب تھا:

كوئى بھى ايسا عمل نہيں جو بچے يا بڑے كى نماز جنازہ سے كفائت كرتا ہو، نہ تو صدقہ و خيرات، اور نہ ہى نيكى كا كوئى دوسرا كام، آپ كو چاہيے كہ جس قبرستان ميں آپ نے اسے دفن كيا ہے وہاں جائيں اور قبرستان كو اپنے سامنے ركھتے ہوئے قبلہ رخ ہو كر باوضوء ہو كر اور نماز كى باقى شروط كے ساتھ اس بچے كى نماز جنازہ ادا كريں، جب آپ كو بعينہ بچے كى قبر كا علم نہ ہو تو اس طرح نماز جنازہ ادا كرنا كافى ہوگا.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اللہ تعالى كسى بھى نفس كو اس كى استطاعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا .

اور ايك دوسرے مقام پر اس طرح فرمايا:

تو تم اللہ تعالى سے اتنا ڈرو جتنى تم ميں استطاعت ہے .

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب ميں تمہيں كوئى حكم دوں تو تم اس پر اپنى استطاعت كے مطابق عمل كرو، اور جب ميں كسى چيز سے منع كروں تو اس سے رك جاؤ"

اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 1 / 27 ).

واللہ تعالى اعلم.

مزيد آپ الانصاف للمرداوى ( 2 / 471 ) اور منح الشفا الشافيات للبھوتى ( 1 / 171 ) كا بھى مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

جنازہ اور قبروں کے احکام
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔