اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

كيا عورت كے ليے نقاب پہننا شرط ہے

07-03-2009

سوال 21134

كيا اسلامى لباس ميں عورت كے ليے نقاب پہننا شرط ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

لغت ميں پردہ: ستر اور حجاب اس پردہ كا نام ہے جس سے چھپا جاتا ہے، اور ہر وہ چيز حجاب ہے جو دو چيزوں كے درميان آڑ ہو اور حائل ہو جائے.

اور حجاب: ہر وہ چيز جو مطلوب كو چھپا دے، اور اس تك پہنچنے نہ دے، مثلا پردہ، دروازے، اور كپڑے .... وغيرہ الخ.

اور الخمار: خمر سے مشتق ہے، اس كى اصل ستر اور پردہ ہے، اسى ميں سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان ہے:

" اپنے برتنوں كو ڈھانپ كر ركھو "

اور جو چيز بھى كسى كو ڈھانپے وہ ڈھانپنے والى ہے.

ليكن الخمار عرف ميں اس چادر اور دوپٹہ كا نام بن چكا ہے جو عورت سر پر ليتى ہے، اور الخمار كا اصطلاحى معنى كا اطلاق لغوى معنى سے باہر نہيں.

بعض فقھاء كرام اس كى تعريف اس طرح كرتے ہيں كہ: الخمار وہ ہے جو سر اور دونوں كنپٹياں، يا گردن كو چھپائے.

حجاب اور خمار ميں فرق يہ ہے كہ: حجاب عام طور پر عورت كے جسم كو چھپاتا ہے، ليكن خمار وہ ہے جس سے عورت اپنا سر چھپاتى ہے.

اور نقاب ـ نون پر زير ـ جس سے عورت نقاب كرے، كہا جاتا ہے: انتقبت المراۃ، و تنقبت، يعنى عورت نے نقاب كے ساتھ اپنا چہرہ چھپايا.

حجاب اور نقاب ميں فرق يہ ہے كہ: حجاب عام پردہ ہے، ليكن نقاب صرف عورت كے چہرے كے ليے پردہ ہے.

اور شرعى پردہ وہ ہے جو عورت كا سر اور چہرہ اور سارا جسم چھپائے.

ليكن نقاب يا برقع ـ جس سے عورت كى آنكھيں ظاہر ہوتى ہوں ـ كے استعمال ميں عورتوں نے وسعت اختيار كر لى ہے، اور بعض نے تو غلط طريقہ سے استعمال كرنا شروع كر ديا ہے، جس كى بنا پر علماء كرام نے اس سے منع كرنا شروع كر ديا ہے، اس ليے منع نہيں كرتے كہ يہ اصل ميں غير شرعى ہے، بلكہ اس كے غلط استعمال كى بنا پر، اور اس ليے كہ اس ميں سستى و تساہل اور كوتاہى برتنى شروع كر دى گئى ہے، اور كئى قسم كے نئے نئے غير شرعى نقاب آنے شروع ہو گئے ہيں، جن ميں آنكھوں كے سوراخ اتنے بڑے كر ديے گئے ہيں كہ عورت كے رخسار، اور ناك اور پيشانى كا بھى كچھ حصہ ظاہر ہونے لگا ہے.

اس بنا پر اگر عورت كا نقاب يا برقع ايسا ہو جس ميں سے آنكھ كے علاوہ كچھ اور ظاہر نہ ہو، اور ديكھنے كے ليے سوراخ بھى اتنا ہو كہ آنكھ جتنا ہى ہو، جيسا كہ بعض سلف مروى ہے تو يہ جائز ہے، وگرنہ عورت كو ايسا پردہ كرنا چاہيے جو اس كے مكمل چہرے كو ڈھانپ اور چھپا كر ركھے.

شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" شرعى پردہ وہ ہے جو عورت كے ان اعضاء كو چھپائے جن كا اظہار كرنا حرام ہے، يعنى: جس كا چھپانا عورت كے ليے واجب ہے اسے چھپائے، اور اس ميں اولى اور سب سے پہلے چہرہ چھپانا ہے، كيونكہ يہى پرفتن اور رغبت كا مقام ہے.

عورت پر واجب ہے كہ وہ غير محرم مردوں سے اپنا چہرہ چھپائے... اس سے يہ علم ہوا كہ پردہ ميں سب سے اولى چيز چہرے كا پردہ ہے، اور كتاب و سنت اور صحابہ كرام اور آئمہ كرام كے اقوال ميں بھى اس كے دلائل موجود ہيں، جو عورت كے ليے غير محرم سے اپنا سارا جسم چھپانے كے وجوب پر دلالت كرتے ہيں "

ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 1 / 391 - 392 ).

اور شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:

" صحيح جس پر دلائل دلالت كرتے ہيں وہ يہى ہے كہ:

عورت كا چہرہ پردہ اور ستر ميں شامل ہے، اور عورت كے ليے چہرے كا پردہ كرنا واجب ہے، بلكہ عورت كے جسم ميں يہ سب سے زيادہ پرفتن مقام ہے؛ كيونكہ نظريں تو اكثر چہرے كى جانب ہى متوجہ ہوتى ہيں، اس ليے عورت ميں چہرہ سب سے زيادہ ستر والى جگہ ہے، اور اس كے ساتھ ساتھ شرعى دلائل بھى چہرے كے پردہ كرنے كے دلائل موجود ہيں.

ان دلائل ميں اللہ سبحانہ و تعالى كا درج ذيل فرمان بھى شامل ہے:

اور آپ مومن عورتوں كو كہہ ديجئے كہ وہ بھى اپنى نگاہيں نيچى ركھيں اور اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كريں، اور اپنى زينت كو ظاہر نہ كريں، سوائے اسكے جو ظاہر ہے، اوراپنے گريبانوں پر اپنى اوڑھنياں ڈالے رہيں، اور اپنى آرائش كو كسى كے سامنے ظاہر نہ كريں، سوائے اپنے خاوندوں كے، يا اپنے والد كے، يا اپنے سسر كے، يا اپنے بيٹوں كے، يا اپنے خاوند كے بيٹوں كے، يا اپنے بھائيوں كے، يا اپنے بھتيجوں كے، يا اپنے بھانجوں كے، يا اپنے ميل جول كى عورتوں كے، يا غلاموں كے، يا ايسے نوكر چاكر مردوں كے جو شہوت والے نہ ہوں، يا ايسے بچوں كے جو عورتوں كے پردے كى باتوں سے مطلع نہيں، اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار كر نہ چليں كہ انكى پوشيدہ زينت معلوم ہو جائے، اے مسلمانو! تم سب كے سب اللہ كى جانب توبہ كرو، تا كہ تم نجات پا جاؤ النور ( 31 ).

اس آيت ميں بيان ہوا ہے كہ اوڑھنى كو اپنے گريبانوں پر لٹكا كر ركھيں، جس سے چہرہ ڈھانپنا لازم آتا ہے.

اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے درج ذيل قولہ تعالى كے متعلق دريافت كيا گيا:

اے نبى صلى اللہ عليہ وسلم آپ اپنى بيويوں اور اپنى بيٹيوں اور مومنوں كى عورتوں سے كہہ ديجئے كہ وہ اپنے اوپر اپنى چادر لٹكا ليا كريں، اس سے بہت جلد ا نكى شناخت ہو جايا كريگى پھر وہ ستائى نہ جائينگى، اور اللہ تعالى بخشنے والا مہربان ہے الاحزاب ( 59 ).

انہوں نے اپنا چہرہ ڈھانپ ليا، اور ايك آنكھ ظاہر كى.

يہ اس كى دليل ہے كہ اس آيت سے مراد چہرہ ڈھانپنا ہے، اس آيت كى تفسير ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے يہى منقول ہے، جيسا كہ عبيدہ السلمانى كے سوال كرنے پر ابن عباس سے يہى فرمايا.

اور سنت نبويہ ميں بہت سارى احاديث اس پر دلالت كرتى ہيں، جن ميں يہ حديث بھى شامل ہے:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے احرام كى حالت ميں عورت كو نقاب كرنے، اور برقع پہننے سے منع فرمايا "

يہ اس كى دليل ہے كہ احرام سے قبل عورت اپنا چہرہ ڈھانپتى ہے.

اس كا يہ معنى نہيں كہ جب عورت حالت احرام ميں نقاب يا برقع نہيں پہنےگى تو وہ غير محرم اور اجنبى مردوں كے سامنے اپنا چہرہ ننگا ركھے، بلكہ عورت پر حالت احرام ميں نقاب اور برقع كے علاوہ كسى اور چيز چادر وغيرہ كے ساتھ اپنا چہرہ ڈھانپا واجب ہے، اس كى دليل درج ذيل حديث ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" ہمارے پاس سے قافلہ سوار گزرتے اور ہم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ احرام كى حالت ميں ہوتيں، تو جب وہ ہمارے برابر آتے ہم ميں سے عورتيں اپنى چادر اپنے سر سے اپنے چہرہ پر لٹكا ديتى، اور جب وہ ہم سے آگے نكل جاتے تو ہم چہرہ ننگا كر ديتيں "

چنانچہ احرام والى عورت اور غير احرام والى دونوں پر غير محرم اور اجنبى مردوں كى موجودگى ميں اپنا چہرہ ڈھانپنا واجب ہے؛ كيونكہ چہرہ ہى خوبصورتى و جمال كا مركز ہے، اور مردوں كے ديكھنے كى جگہ ہے...

واللہ تعالى اعلم.

ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 1 / 396 - 397 ).

اور شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:

" نقاب با برقع كے ساتھ جس ميں صرف آنكھوں كے ليے دو سوراخ ہوں چہرہ ڈھانپنے ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں بھى يہ چيز معروف تھے، اور صرف ضرورت كى بنا پر ايسا ہے، اور اگر صرف دونوں آنكھوں كے علاوہ كچھ ظاہر نہ ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں، خاص كر جب عورت كا اپنے معاشرہ ميں يہ برقع اور نقاب پہننا عادت ہو "

ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 1 / 399 ).

واللہ اعلم .

عورت کا لباس
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔