اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

کسی جانور کے مرنے پر "إنا لله وإنا إليه راجعون" کہنا جائز ہے؟

26-01-2015

سوال 212571

سوال: کیا "إنا لله وإنا إليه راجعون" کا جملہ جانوروں کی موت پر بھی کہا جاسکتا ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:
کسی کو چھوٹی بڑی کوئی بھی مصیبت پہنچے تو شرعاً اسے صبر کرنا چاہئے، اور اس پر ثواب کی امید رکھے، اور یہ کہے: "إنا لله وإنا إليه راجعون"، چنانچہ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کسی بھی تکلیف کے پہنچنے پر مؤمن کیلئے ضروری ہے کہ وہ "إنا لله وإنا إليه راجعون" پڑھنے ، کیونکہ اللہ تعالی نے ایسے لوگوں کی تعریف کی ہے، اور صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (کسی بھی مسلمان کو کوئی بھی تکلیف پہنچے، اور اسکے بعد وہ کہے: " اَللَّهُمَّ أْجُرْنِي فِي مُصِيبَتِي، وَأَخْلِفْ لِي خَيْرًا مِنْهَا ")یا اللہ! مجھے میری مصیبت میں اجر سے نواز، اور مجھے اس کا بہتر نعم البدل عطا فرما (اللہ تعالی اسے اجر سے بھی نوازے گا، اور بہترین نعم البدل بھی عطا فرمائے گا)" مسلم: (918)"انتہی
ماخوذ از: " فتاوى نور على الدرب" (9/ 2) مکتبہ شاملہ  کی ترتیب کے مطابق

چنانچہ اگر کسی مسلمان کا کوئی پالتو جانور جیسے کہ بہیمۃ الانعام [یعنی: گائے ، اونٹ، بھیڑ، بکری] مر جائے، تو یہ  مسلمان کے مال میں کمی ہے، چنانچہ مسلمان کیلئے ایسی حالت میں ثواب کی امید سے " إنا لله وإنا إليه راجعون " کہنا جائز ہے۔

اور ابن ابی شیبہ (26652) میں سعید بن مسیب سے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا گیا ہے کہ، انہوں نے کہا: "عمر رضی اللہ عنہ کے جوتے کا تسمہ ٹوٹ گیا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: " إنا لله وإنا إليه راجعون " تو ساتھیوں کہنے لگے : امیر المؤمنین! کیا جوتے کا تسمہ ٹوٹنے پر بھی [آپ یہ الفاظ پڑھتے ہیں!] تو انہوں نے وضاحت کی کہ : مؤمن کو پہنچنے والی ہر ناگوار چیز  مصیبت ہی ہوتی ہے"

اور قرطبی رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
"ہر چھوٹی بڑی تکلیف کو "مصیبت" کہتے ہیں"انتہی
"تفسير قرطبی" (2/ 175)

مزید کیلئے سوال نمبر: (157920) کا مطالعہ کریں

اور اگر مرنے والا جانور ایسا ہے کہ جسے پالنا حرام ہے، یا اس جانور کے مرنے سے کوئی تکلیف محسوس نہیں  ہوتی، مثال کے طور پر وہ جانور کسی اور کی ملکیت تھا، یا جنگلی جانوروں کا طرح انکا کوئی مالک ہے ہی نہیں، تو اس صورت میں " إنا لله وإنا إليه راجعون " پڑھنے کی کوئی صورت نہیں نکلتی۔

لیکن اگر کسی کے مرنے پر موت یاد آئی اور اس نے اللہ کی طرف واپسی کو ذہن میں بیٹھا کر  " إنا لله وإنا إليه راجعون "پڑھ لیا، تو ایسی صورت میں ان شاء اللہ کوئی حرج والی بات نہیں ہے، کیونکہ یہ سوچ اور یاد شرعی طور پر مطلوب ہے۔

قرطبی رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
" إنا لله"  کہنے سے وحدانیت، اللہ تعالی کی معبودیت، اور بادشاہی کا اقرار ہوتا ہے۔

اور " وإنا إليه راجعون " سے اپنی ہلاکت، اور قبروں سے دوبارہ جی اُٹھنے، اور تمام معاملات کے اللہ کی طرف لوٹنے  کا اقرار ہے۔ انتہی
" تفسير قرطبی" (2/ 176)

اور شیخ ابن باز رحمہ اللہ  کہتے ہیں کہ:
" کافر کے مرنے پر "إنا لله وإنا إليه راجعون"  اور "الحمد لله"کہنے میں کوئی حرج نہیں ، چاہے وہ آپکے اقرباء میں سے نہ ہو، کیونکہ سب لوگوں نے اللہ ہی کی طرف لوٹ کا جانا ہے، اور تمام لوگ اللہ تعالی کی ملکیت میں  ہیں، چنانچہ ایسا کہنے میں کوئی حرج نہیں"انتہی
" فتاوى نور على الدرب " (ص 375)

واللہ اعلم.

جنازہ اور قبروں کے احکام شرعی اذکار
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔