اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

حرام ادویات

27-12-2024

سوال 215281

میں لیڈی ڈاکٹر ہوں ، میں چاہتی ہوں کہ آپ عملی طور پر بلکہ اگر ممکن ہو تو مثالوں کے ساتھ بیان کریں کہ کون سی ادویات مریض کے لیے تجویز کرنا حرام ہے، میں یہ تو جانتی ہوں کہ نشہ آور ادویات تجویز کرنا جائز نہیں ہے، لیکن ممکن ہے کہ کسی مریض کو کوئی دوا تجویز کرتے ہوئے میں توجہ نہ کر سکوں اور مریض کو حرام دوا لکھ دوں! اس لیے آپ میری رہنمائی کریں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں پر احسانات میں سے یہ ہے کہ اس نے ہر بیماری کی شفا عطا فرمائی ہے اور علاج کروانے کی ترغیب بھی دلائی ۔

چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری نہیں اتاری لیکن اس کی شفا نازل کی ہے۔) اسے بخاری (5678) نے روایت کیا ہے۔

اسی طرح سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ہر بیماری کا علاج ہے، پس اگر بیماری تک دوا پہنچ جائے تو اللہ کے حکم سے شفا یابی مل جاتی ہے۔) اسے مسلم (2204) نے روایت کیا ہے۔

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان: (ہر بیماری کا علاج ہے) میں مریض اور ڈاکٹر دونوں کی مضبوط حوصلہ افزائی ہے ، نیز بیماری کی تشخیص اور اس کا علاج تلاش کرنے کی ترغیب بھی ہے۔” ختم شد
ماخوذ از: “زاد المعاد” (4/15)

تاہم علاج کروانے کی اجازت اور رخصت کے ساتھ ساتھ حرام چیزوں سے علاج کروانا جائز نہیں ہے، منع ہے۔

جیسے کہ وائل حضری کہتے ہیں کہ: طارق بن سوید جعفی نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے شراب کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرما دیا، یا شراب کشید کرنے کو حرام قرار دیا۔
تو طارق نے کہا: میں نے شراب علاج کے لیے بنائی ہے۔
تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (شراب دوا نہیں ہے، بلکہ بیماری ہے۔) اسے مسلم: (1948) نے روایت کیا ہے۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خبیث چیزوں سے علاج کرنے سے منع فرمایا۔ اس حدیث کو ترمذی رحمہ اللہ : (2045) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

اسی طرح سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً اللہ تعالی نے بیماری اور علاج دونوں نازل کیے ہیں، اور ہر بیماری کی دوا بھی پیدا کی ہے۔ اس لیے تم علاج کرو، لیکن حرام چیز کے ذریعے علاج مت کرو۔) اس حدیث کو ابو داود رحمہ اللہ : (3874) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے دیگر معنوی شواہد کی بنا پر اسے صحیح قرار دیا ہے۔
” التعليقات الرضية على الروضة الندية ” (3/154)

دوم:

صرف یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ: جس دوا میں بھی کوئی حرام چیز مثلاً: شراب یا خنزیر شامل ہے ، وہ حرام ہے۔ بلکہ اہل علم اس کی تفصیل بیان کرتے ہیں، جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:

1-خالص حرام اور نجس چیزوں سے علاج کرنا:

مثلاً: شراب کے ذریعے علاج کرنا، یا کچھ علاقوں میں بعض لوگ اپنا ہی پیشاب علاج کے لیے پیتے ہیں۔ تو یہ حرام ہے؛ کیونکہ پہلے احادیث گزر چکی ہیں جن میں شراب اور خبیث چیزوں سے علاج معالجہ منع قرار دیا گیا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“حرام اور نجس چیزوں سے علاج کرنا حرام ہے؛ کیونکہ ان چیزوں کے حرام ہونے کے دلائل عام ہیں کہ انہیں علاج اور غیر علاج ہر طرح کی حالت میں استعمال کرنا حرام ہے، چند عمومی دلائل درج ذیل ہیں: فرمانِ باری تعالی ہے: حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ ترجمہ: تم پر مردار حرام قرار دے دیا گیا ہے۔ [المائدۃ: 3] حدیث مبارکہ ہے کہ: (ہر کچلی والا درندہ حرام ہے۔) اور فرمانِ باری تعالی: إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ ترجمہ: بلا شبہ شراب، جوا، استھان اور پانسے پلید ہیں۔ [المائدۃ: 90] یہ تمام آیات علاج معالجے اور دیگر تمام حالات کے لیے عام ہیں، اگر علاج معالجے اور دیگر حالات میں کوئی انسان تفریق کرے تو وہ ایسی چیز میں تفریق کر رہا ہے جو اللہ تعالی نے یکجا رکھی ہیں، اور اللہ تعالی کے عموم کو خاص کر رہا ہے، جو کہ دلیل کے بغیر جائز نہیں ہے۔” معمولی تصرف کے ساتھ اقتباس مکمل ہوا۔

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“حرام چیزوں کے ذریعے علاج معالجہ شرعاً اور عقلا ہر دو اعتبار سے برا عمل ہے، شرعاً تو ہم پہلے احادیث وغیرہ بیان کر چکے ہیں، جبکہ عقل کے اعتبار سے اس لیے منع ہے کہ: اللہ تعالی نے ان چیزوں کو حرام ہی اس لیے کیا ہے کہ یہ چیزیں خبیث ہیں؛ چنانچہ اللہ تعالی نے اس امت پر کوئی بھی چیز بطور سزا کے حرام قرار نہیں دی، جبکہ بنی اسرائیل پر بطور سزا پاکیزہ چیزوں کو حرام قرار دیا گیا تھا، اسی چیز کا تذکرہ اللہ تعالی نے یوں فرمایا: فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبَاتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ ترجمہ: یہودیوں کے ظلم کرنے کی وجہ سے ہم نے ان پر وہ پاکیزہ چیزیں حرام قرار دے دیں جو ان کے لیے حلال قرار دی گئیں تھیں۔ [النساء: 160] لہذا اس امت کے لیے جو چیز بھی حرام قرار دی گئی ہے وہ اس چیز کی خباثت کی وجہ سے ہے، نیز اس چیز کی حرمت پوری امت کے لیے بچاؤ کا ذریعہ ہے کہ حرام چیز امت کے افراد تناول نہیں کریں گے، اس لیے یہ بالکل مناسب نہیں ہے کہ انسان کسی بھی بیماری اور مرض کا علاج حرام چیز کے ذریعے کرے؛ کیونکہ اگر حرام چیز اس بیماری کو زائل کرنے میں معاون ثابت ہو بھی جائے تو اس کی وجہ سے پہلے سے بھی بڑی قلبی بیماری انسان کو لاحق ہو سکتی ہے؛ کیونکہ اس چیز میں خباثت ہی اتنی شدید نوعیت کی ہے۔ تو اس طرح انسان گویا جسمانی بیماری کا علاج قلبی بیماری کے عوض کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔” ختم شد
” زاد المعاد ” ( 4/143)

2-ایسی ادویات جن میں نشہ آور اشیا ملی ہوئی ہوں:

ادویات میں نشہ آور چیز کا وجود دو طرح کا ہو سکتا ہے:

پہلی حالت: نشہ آور چیز کی مقدار تنی کم ہو کہ اگر بہت زیادہ مقدار میں بھی اس دوا کو استعمال کیا جائے تو نشہ نہ ہو۔

ایسی حالت میں متعدد علمائے کرام نے اس دوا کو استعمال کرنے کے جواز کا فتوی دیا ہے؛ کیونکہ شراب اس لیے حرام قرار دی گئی ہے کہ اس کی تھوڑی یا زیادہ مقدار نشہ آور ہونے کا باعث ہے، لیکن اس دوا سے نشہ آوری ختم ہو چکی ہے، اس لیے اس دوا کی تھوڑی یا زیادہ مقدار نشہ آوری کا باعث نہیں ہے، اس لیے اس دوا کو کھانا جائز ہے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (40530) کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوسری حالت: دوا میں نشہ آور چیز کی مقدار زیادہ ہو کہ اگر اس کی زیادہ مقدار استعمال کی جائے تو انسان نشے کی حالت میں چلا جائے، تو ایسی صورت میں مریض کے لیے یہ دوا استعمال کرنا جائز نہیں ہو گا؛ کیونکہ اس دوا میں نشہ موجود ہے، اس لیے اس کا حکم شراب والا ہو گا۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے شہد کی بنی ہوئی شراب کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو مشروب بھی نشہ آور ہو تو وہ حرام ہے۔) اسے مسلم: (2001) نے روایت کیا ہے۔

اسی طرح سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ آور ہو تو اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے۔) اس حدیث کو ابو داود رحمہ اللہ : (3681) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے “صحیح سنن ابو داود” (3681) میں صحیح قرار دیا ہے۔

3- حرام و نجس اشیا ملی ہوئی ادویات:

مثلاً: کچھ ادویات میں خنزیر کی چربی استعمال کی گئی ہوتی ہے، یا مردار جانور کے کچھ اجزاء شامل کیے گئے ہوتے ہیں تو ان کی بھی پھر دو صورتیں ہیں:

پہلی صورت: یہ حرام نجس چیزیں دوائی کے ساتھ مل کر اپنا وجود کھو دیں، اس کے لیے فقہ میں “استحالہ” کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، یہ اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی چیز اپنی اصلی ماہیت سے بدل کر کچھ اور بن جائے۔ دیکھیں: ” الموسوعة الفقهية ” ( 3/213)

تو کچھ نجس چیزیں دوا بننے کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے کیمیائی اثرات کی وجہ سے اپنی اصلی ماہیت کھو دیتی ہیں اور کچھ اور چیز بن جاتی ہیں۔

ایسے میں متعدد اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ جب نجس چیز اپنی خصوصیات کھو دے، اور کسی اور چیز میں بدل جائے تو جب اس میں نجس قرار دیے جانے کا سبب ختم ہو گیا تو اسے نجس نہیں کہا جائے گا۔ اس چیز کی طہارت کا حکم لگایا جائے گا۔

علامہ قرافی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اس کی وجہ بالاجماع یہ ہے کہ اللہ تعالی نے کسی بھی چیز کو نجس محض اس کے وجود اور جسم کی وجہ سے نہیں کہا بلکہ اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ہے جو اس چیز میں پائی جاتی ہے کہ اس کی رنگت خاص نوعیت کی ہے، یا اس میں کوئی وصف پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے اسے نجس قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ جس مخصوص نوعیت کا رنگ یا وصف اس چیز سے ہٹ گیا تو اس کے نجس کہلانے کا موجب بھی ختم ہو گیا۔ اس لیے اسے نجس نہیں کہا جائے گا۔” ختم شد
” الفروق ” (2/207)

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اس اصول کی روشنی میں شراب اگر کسی اور چیز میں بدل جائے تو یہ قیاس کے عین مطابق بات ہو گی؛ کیونکہ شراب نشہ آوری کی وجہ سے نجس تھی، تو جب نجس ہونے کا سبب نہیں رہا تو اسے نجس بھی نہیں کہا جائے گا۔ یہ شریعت کا اصول ہے جو کہ بنیادی مصادر میں موجود ہے، بلکہ ثواب و عقاب کی بنیاد بھی یہی اصول ہے۔

اس بنا پر: قیاسِ صحیح یہ ہے کہ اس حکم کو دیگر تمام نجاستوں کے بارے میں بھی لاگو کیا جائے کہ جب کوئی نجس چیز بالکل تحلیل ہو جائے تو اسے نجس قرار نہ دیا جائے۔ چنانچہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی مسجد کی جگہ سے مشرکوں کی قبروں کو اکھڑوایا لیکن ان کی مٹی کو منتقل نہیں کیا۔ ایسے ہی اللہ تعالی نے بتلایا کہ دودھ خون اور گوبر کے درمیان سے نکلتا ہے۔ پھر مسلمانوں کا اجماع ہے کہ جب کسی جانور کو نجس چیز بطور چارا ڈالی گئی ، پھر جانور کو صرف پاکیزہ چیزیں کھانے کے لیے دی گئیں تو اس کا دودھ اور گوشت حلال ہو گا، اسی طرح کھیتی اور زرعی اجناس کا معاملہ ہے کہ اگر انہیں نجس پانی لگایا گیا ،پھر صاف پانی لگایا گیا تو یہ زرعی اشیا حلال ہوں گی؛ کیونکہ ان میں خباثت ختم ہو کر طیب میں بدل گئی ہے۔

اس کے الٹ بھی دیکھیں کہ: اگر کوئی پاکیزہ چیز خبیث چیز میں بدل جائے تو اسے نجس کہتے ہیں، جیسے کہ پانی اور کھانا وغیرہ جب پیشاب اور پاخانے میں بدل جائے تو دونوں کو پلید کہتے ہیں، تو اسی طرح جب کوئی چیز خباثت سے طیب میں بدل جائے تو اس وقت وہ پاک کیوں نہیں کہلاتی؟

پھر اللہ تعالی نے طیب سے خبیث اور خبیث سے طیب پیدا فرماتا ہے، اور اس سارے عمل میں اصل کی طرف نہیں دیکھا گیا بلکہ اس چیز کی موجودہ حالت کو دیکھا گیا ہے۔۔۔” ختم شد
” اعلام الموقعين ” (3/183)

استحالہ کا اعتبار کرنا جمہور اہل علم کا موقف ہے، جیسے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
“جمہور اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کوئی چیز نجس ہو تو استحالہ کے بعد پاک ہو جائے گی۔ یہ موقف احناف اور اہل ظاہر کا اسی طرح ایک روایت کے مطابق امام مالک اور احمد کا بھی یہی موقف ہے، جبکہ امام شافعی کے ہاں ایک توجیہ اسی کے موافق ہے۔” ختم شد
مجموع الفتاوی: (21/510)

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (97541) کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوسری حالت: اگر نجس چیز دوائی میں اپنی اصلی حالت میں موجود ہو ، کسی اور مادے میں تبدیل نہ ہوا ہو ، مثلاً: کچھ ادویات میں خنزیر کی چربی ڈالی جاتی ہے اور یہ اپنی اصلی حالت میں باقی رہتی ہے، دوا کے تیار ہونے پر بھی اپنی حالت برقرار رکھے ہوئے ہوتی ہے، تو ایسی صورت میں یہ دوائی استعمال کرنا حرام ہو گا، کیونکہ دوا میں نجس اجزا بھی کھانے میں آئیں گے۔

اس حوالے سے آپ مزید کے لیے حسن بن احمد الفکی کی کتاب: ” أحكام الأدوية في الشريعة الإسلامية ” کا مطالعہ کریں، یہ کتاب آپ کے لیے بہت مفید ہو گی ؛ کیونکہ ایک تو آپ کے شعبے سے متعلق ہے اور اس کا انداز بھی آسان ہے، نیز یہ کتاب آپ کو انٹرنیٹ پر بھی با آسانی دستیاب ہو سکتی ہے۔

مندرجہ بالا تفصیلات کا حاصل یہ ہے کہ:
اگر کوئی حرام چیز چاہے نشہ آور ہو یا غیر نشہ آور نجس ہو: اس کی وہ صفات ختم ہو جائیں جن کی وجہ سے اسے حرام قرار دیا گیا تھا کہ ان صفات کا کوئی اثر بھی باقی نہ ہو ، یا دوا کے ساتھ ملی ہوئی نشہ آور چیز کی نشہ آوری کے اثرات باقی نہ رہیں تو اس صورت میں اس دوا کو کھانا جائز ہو گا، مریض کے لیے یہ دوا تجویز بھی کر سکتے ہیں؛ کیونکہ حرام یا نشہ آور چیز اس دوا میں تحلیل ہو چکے ہیں، اور ان کا ذاتی کوئی اثر نہیں رہا۔

اور لیکن اگر حرام چیز کے اثرات باقی ہوں، تو ایسی دوا مریض کے لیے تجویز کرنا جائز نہیں ہو گا، نہ ہی اس کے ذریعے علاج کرنا درست ہو گا۔

اب یہ بات کہ کوئی حرام یا نجس چیز دوا میں اپنی اصل کے ساتھ موجود ہے یا تحلیل ہو گئی ہے ، یہ بات دوائی بنانے والے ماہرین مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر بتلا سکتے ہیں، اس کے لیے ادویات میں استعمال ہونی والی اشیا کی مقدار کا تناسب بھی معاون ثابت ہو سکتا ہے کہ کون سی چیز کتنی دوا میں استعمال ہوئی ہے۔

سوم:

حرام چیزوں پر مشتمل ادویات کے ناموں کے بارے میں یہ ہے کہ آپ دوائی بنانے والے تجربہ کار ، دیندار اور معتمد فارماسیسٹ سے رابطہ کریں۔

واللہ اعلم

طب اور علاج
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔