اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

بندر گاہ پہنچنے سے پہلے کارگو کیے ہوئے سامان کو فروخت کرنا۔

29-10-2022

سوال 217314

کیا کسی درآمد کنندہ تاجر کے لیے یہ جائز ہے کہ مال بندر گاہ پہنچنے سے پہلے ہی فروخت کر دے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اس مسئلے کی دو صورتیں ہیں:

پہلی صورت:

بیع ہو جائے، اور پھر بائع خود ہی کسی کمپنی کے ذریعے سامان کارگو کروا کر مشتری کو ارسال کر دے۔

اس صورت میں سامان بائع کی ملکیت میں ہو گا تاآنکہ مشتری اسے وصول کر لے اور وہ چیز مشتری کے علاقے میں پہنچ جائے، اس دوران یہ چیز بائع کی ضمانت میں رہے گی، چنانچہ اگر تلف ہو جاتی ہے یا اسے کسی قسم کا نقصان پہنچتا ہے تو وہ بائع کی ذمہ داری میں ہو گا۔

اس بنا پر: بندر گاہ پہنچنے اور قبضے میں لینے سے قبل مشتری کے لیے اس چیز کو فروخت کرنا جائز نہیں ہو گا، نہ ہی اس میں کسی قسم کا رد و بدل کر سکتا ہے، کیونکہ اس صورت میں قبضے سے پہلے چیز کی بیع ہو گی، اور ایسی چیز میں نفع کمانا شمار ہو گا جس کا وہ ابھی ضامن ہی نہیں ہے اور یہ چیز سنت نبویہ میں منع ہے۔

اس بیع کے حرام ہونے کے دلائل پہلے سوال نمبر: (169750 ) کے جواب میں گزر چکے ہیں۔

کارگو کی رسید یا لوڈنگ بل مال کو قبض کرنے کے قائم مقام نہیں ہو گا؛ کیونکہ اسے وصول کرنے سے مال کی ضمانت مشتری کی طرف منتقل نہیں ہوتی۔

الشیخ صدیق محمد امین ضریر کہتے ہیں:
"بیع فاسدہ کی شکلوں میں یہ بھی شامل ہے کہ: مال ابھی راستے میں بحری جہاز پر ہو اور صرف کارگو کی رسید وصول کرنے کی بنا پر اسے فروخت کر دیا جائے، چنانچہ اگر تاجر نے بیع اس شرط پر کی ہے کہ وہ مال بندر گاہ پر وصول کرے گا، تو خریدار کے لیے بندر گاہ پر مال وصول کرنے سے پہلے اسے آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہے چاہے اس نے کارگو رسید وصول کر لی ہو۔" ختم شد
" مجلة مجمع الفقه الإسلامي " (6/1/491)

دوسری صورت:

یہ ہے کہ بیع ہو جائے اور پھر مشتری کسی بھی شخص یا کارگو کمپنی کو مال وصول کر کے اسے کارگو کروانے کے لیے اپنا نمائندہ بنائے کہ مال بائع کی ملکیت اور ذمہ داری سے نکل کر مشتری کی ملکیت اور ذمہ داری میں آ جائے۔

تو اس صورت میں یہ مال مکمل طور پر مشتری کی ملکیت اور ذمہ داری میں ہے ، اور اسے یہ مال آگے فروخت کرنے کا حق حاصل ہے؛ کیونکہ مشتری کے نمائندے کا مال وصول کرنا ایسے ہی جیسے اصل مشتری نے وصول کیا ہے۔

چنانچہ اگر یہ مشتری ایسی چیز کو پہنچنے سے قبل فروخت کر دے، تو یہ اس بیع کو غیر حاضر چیز کی بیع کہتے ہیں، اور یہ جمہور علمائے کرام کے ہاں جائز ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ آخری خریدار کو مال پہنچنے پر اختیار حاصل ہو گا کہ اگر مال متفقہ شرائط کے مطابق نہ ہو تو بیع فسخ کر دے۔

خلاصہ یہ ہوا کہ:
اس مسئلے کی بنیاد اس فرق پر ہے کہ کارگو کے دوران مال بائع کی ضمانت میں ہے یا مشتری کی ضمانت میں ؟ چنانچہ اگر بائع یعنی برآمد کنندہ (Exporter) پر ہے تو مشتری اسے فروخت نہیں کر سکتا، اور اگر مشتری یعنی (Importer) پر ہے تو وہ اسے فروخت کر سکتا ہے۔

واللہ اعلم

معاملات
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔