"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
جب حقيقى يا باپ كى جانب سے كوئى بھائى موجود ہو تو پھر بھتيجے وارث نہيں بنتے.
اس بنا پر يہاں بھتيجے كسى چيز كے بھى وارث نہيں ہونگے.
دوم:
جب كوئى حقيقى اور سگا بھائى موجود ہو تو پھر باپ كى جانب سے بھائى وارث نہيں بن سكتا چاہے وہ لڑكے ہوں يا لڑكياں.
اہل علم كے ہاں يہ سب كچھ متفق عليہ ہے.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 9 / 22 - 23 ).
اس بنا پر اس مسئلہ مسئولہ ميں تركہ حقيقى بہن بھائيوں پر تقسيم ہو گا، اور لڑكے كو دو لڑكيوں كے برابر حصہ ملےگا، اس كى دليل اللہ سبحانہ وتعالى كا يہ فرمان ہے:
آپ سے وہ فتوى پوچھتے ہيں، آپ كہہ ديجئے كہ اللہ تعالى ( خود ) تمہيں كلالہ كے بارہ ميں فتوى ديتا ہے كہ اگر كوئى شخص مر جائے اور اس كى كوئى اولاد نہ ہو، اور اس كى ايك بہن ہو تو اس كے ليے چھوڑے ہوئے مال كا آدھا حصہ ہے، اور وہ بھائى اس بہن كا وارث ہوگا اگر اس بہن كى اولاد نہ ہو، پس اگر وہ دو بہنيں ہوں تو انہيں مال متروكہ كا دو تہائى ملے گا، اور اگر كئى بھائى ہوں مرد بھى اور عورتيں بھى تو پھر ايك مرد كو دو عورتوں كے برابر حصہ ملےگا، اللہ تعالى تمہارے ليے بيان فرما رہا ہے كہ ايسا نہ ہو كہ تم بہك جاؤ، اللہ تعالى ہر چيز سے واقف ہے النساء ( 176 ).
واللہ اعلم .