اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

حجراسماعیل صرف نام ہی ہے جس کی کوئ اصلیت نہیں

13-10-2003

سوال 22004

میں نے اپنے شيخ سے سنا ہے کہ اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ھاجرحجر اسما‏عیل ( حطیم ) میں دفن ہیں کیا یہ صحیح ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.


پہلے توہم یہ تنبیہ کرنا چاہتے ہيں کہ لوگوں کا حطیم کوحجر اسماعیل کہنا ایسا نام ہے جس کی کوئ اصلیت نہیں ، اوراسماعیل علیہ السلام کو اس ( حطیم ) کا توعلم بھی نہیں ۔

ابراھیم اوراسماعیل علیہما السلام نے کعبہ کومکمل بنایا جس میں یہ حطیم بھی شامل تھا یعنی اس وقت یہ حطیم والی جگہ بھی کعبہ میں شامل تھی ، پھر اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل آگ لگنے اورسیلاب کی وجہ سے دیواریں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئيں توقریش نے بچھی کھچی دیواروں کرگرا کراس کی تعمیر نو کی تو حلال کا خرچہ کم پڑگيا جس کی بنا پر ابراھیم اوراسماعیل علیہما السلام کی بنیادوں پرکعبہ کی تعمیر مکمل نہ ہوسکی اورحطیم کوباہر نکال دیا گيا اوراس پرایک چھوٹی سی دیوار بنا دی تا کہ یہ بھی کعبہ کہ حصہ ہی معلوم ہوتا رہے ۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنے آپ پرشرط لگائ تھی کہ تعمیر کعبہ میں صرف حلال پونجی ہی لگائ جاۓ گی جس میں نہ توسودی رقم اورنہ ہی فحاشی کی کمائ اور نہ ہی ظلم وستم کے طریقہ سے حاصل ہونے والا پیسہ صرف کیا جاۓ گا ۔

صحیحین میں عائشہ رضي اللہ تعالی عہنا سے حدیث مروی ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ :

میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا حطیم بھی بیت اللہ کا حصہ ہے ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا جی ہاں ، میں کہنے لگی انہیں کیا ہوا کہ انہوں نے اسے بیت اللہ میں شامل کیوں نہیں کیا ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تیری قوم کےپاس خرچہ کم ہوگيا تھا ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1584 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1333 ) ۔

اورجدر ، جدارہی ایک لغت ہے جس سے مراد حجر ( حطیم ) ہے ۔

تو اب صحیح یہی ہے کہ اسے اسماعیل علیہ السلام کی طرف منسوب کیے بغیر صرف حجر ( حطیم ) ہی کہا جاۓ نہ کہ حجر اسماعیل علیہ السلام ۔

اوریہ بات کسی بھی مرفوع اورصحیح حدیث میں ثابت نہیں کہ اس میں اسماعیل علیہ السلام یا پھر ان کی والدہ ھاجر مدفون ہیں ، لیکن کچھ ایسے آثار جو کہ سب کے سب واھی اورضعیف اسانید کے ساتھ مروی ہیں جن میں یہ ذکر ملتا ہے کہ اسماعیل علیہ السلام کی قبر حطیم میں ہے ۔

دیکھیں کتاب :

تحذير الساجد من اتخاذ القبومساجد ، للشیخ علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی ص ( 75 - 76 ) ۔

اوریہ کہ اسماعیل علیہ السلام اپنی والدہ یا پھر انہیں ان کی اولاد کعبہ کے اندر دفن کرے یہ توبہت ہی بعید ہے جوکہ سوچ میں بھی آنی مشکل ہے ، اوریہ کہنا بھی صحیح نہیں اور نہ ہی اس کا کہیں ثبوت ہی ملتا ہے ۔ واللہ اعلم .

حرمین کے احکام سیرت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔