"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
نمازوں کے اوقات کے متعلق ابو حنیفہ اور جمہور کے موقف میں فرق دو مسائل پر منحصر ہے:
پہلا مسئلہ: عصر کی نماز کا ابتدائی وقت
اس بارے میں دو اقوال ہیں:
پہلا قول:
جس وقت ظہر کا وقت ختم ہو ، اور ہر چیز کا سایہ زوال کا سایہ نکال کر ایک مثل ہو جائے تو عصر کا وقت شروع ہو جائے گا، گزشتہ سوالات میں سے سوال نمبر: (9940) میں ہر چیز کا سایہ ایک مثل ہونے کے بارے میں مکمل تفصیل گزر چکی ہے۔
یہ موقف تمام مالکی ، شافعی، حنبلی فقہاء سمیت احناف میں سے ابو یوسف، اور محمد
بن حسن رحمہم اللہ جمیعاً کا ہے، بلکہ حنفی فقیہ سرخسی رحمہ اللہ نے "
المبسوط" (1/141) میں کہا ہے کہ:
"محمد رحمہ اللہ نے ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے یہی نقل کیا ہے، اگرچہ انہوں نے یہ موقف
کتاب میں صراحت کے ساتھ ذکر نہیں کیا" انتہی
بلکہ یہی موقف احناف میں سے امام طحاوی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔
اس موقف کی متعدد صحیح دلیلیں ہیں، جن میں سے واضح اور صریح ترین ہم بیان کرتے ہیں:
1-
وہ حدیث جس میں جبریل علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کروائی ، اس
میں ہے کہ: "جبریل نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز عصر کی امامت کروائی جس وقت
ہر چیز کا سایہ ایک مثل ہوگیا تھا "
ابو داود :(393) ترمذی: (149- 150) اور امام ترمذی نے اسے حسن ، صحیح کہا ہے،
البانی نے اسے "صحیح ابو داود" میں صحیح قرار دیا ہے۔
2-
انس
بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز اس
وقت پڑھا کرتے تھے جب سورج بلند اور صاف ہوتا، [نماز کے بعد] ایک شخص عوالی تک
جا کر واپس آجاتا ، اور سورج ابھی بلند ہی ہوتا تھا"
بخاری: (550) مسلم : (621)
بخاری اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ : "وہ صحابی مسجد قبا پہنچ جاتے ، اور سورج
ابھی تک بلند ہوتا تھا" اس کا مطلب یہ ہے کہ سورج کی تپش اور روشنی باقی ہوتی تھی،
مدینہ منورہ سے قریب ترین عوالی کا حصہ دو میل کے فاصلے پر ہے، اور دوسرا کنارہ چھ
میل کے فاصلے پر ہے۔
مزید کیلئے دیکھیں: " فتح الباری" (2/39)
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عصر کی نماز پڑھنے کے بعد دو تین میل چل کر جانا، اور سورج کی روشنی زردی مائل
نہ ہو یہ اسی وقت ممکن ہے کہ عصر کی نماز اس وقت پڑھی جائے جب ہر چیز کا سایہ ایک
مثل ہو، اور ایسا ان دنوں میں ممکن ہے کہ جب دن لمبے ہوں" انتہی
" شرح مسلم " (5/122)
دوسرا قول:
یہ ہے کہ عصر کا وقت اس وقت شروع ہوگا جب زوال کے سایے کے علاوہ ہر چیز کا سایہ دو
مثل ہو جائے، یہ موقف امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ہے، اسی کے اکثر متأخر حنفی
فقہائے کرام قائل ہیں، یہی وجہ ہے کہ جن ممالک میں فقہ حنفی رائج ہے ان میں عصر کی
اذان تاخیر کیساتھ ہوتی ہے۔
ان کی تین دلیلیں ہیں:
1-
ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا:
(کہ
تمہاری بقا ان امتوں کے مقابلہ میں جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں
ایسے ہی ہے جیسے نماز عصر سے مغرب کے درمیان کا وقت ہے، اہل تورات کو عمل کیلئے
تورات دی گئی، جب آدھا دن گزرا تو مزید عمل کرنے سے عاجز آگئے، اور انہیں ایک ایک
قیراط دے دیا گیا، پھر اہل انجیل کو انجیل عمل کرنے کیلئے دی گئی ، تو انہوں نے عصر
تک عمل کیا، اور مزید عمل کرنے سے عاجز آگئے، انہیں بھی ایک ایک قیراط دے دیا گیا،
اس کے بعد ہمیں قرآن عمل کرنے کیلئے دیا گیا تو ہم نے قرآن پر سورج غروب ہونے تک
عمل کیا، تو ہمیں دو ، دو قیراط دیے گئے، اس پر اہل کتاب نے کہا: "پروردگار! تو نے
ان لوگوں کو دو ، دو قیراط دیے ہیں، اور ہمیں ایک ایک!؟حالانکہ ہم نے محنت زیادہ کی
ہے!؟") تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ : (اللہ تعالی نے انہیں فرمایا: "کیامیں
نے تمہاری اجرت میں کوئی کمی کی ؟" تو انہوں نے جواب دیا: "نہیں" تو اللہ تعالی نے
فرمایا: "یہ میرا فضل ہے، میں جسے چاہوں اسے دوں")
بخاری: (557)
اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے احناف کے مانے ہوئے فقیہ امام کاسانی رحمہ اللہ کہتے
ہیں:
"اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عصر کا دورانیہ ظہر کے دورانیے سے کم ہے، اور یہ اسی وقت
ممکن ہے جب امام ابو حنیفہ کی عصر کے بارے میں رائےاختیار کی جائے " انتہی
" بدائع الصنائع " (1/315)
لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس استدلال کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے:
"یہ بات اہل علم و فن کے ہاں مشہور ہے کہ جمہور کے موقف کے مطابق بھی عصر کا اول
وقت [ایک مثل] مانیں تب بھی ظہر اور عصر کا درمیانی فاصلہ عصر اور مغرب کے درمیانی
فاصلے سے زیادہ ہے،[اور احناف کے استدلال کا یہ جواب دیا جائے گا کہ] حدیث میں
اِس بات کی صراحت نہیں ہے کہ دونوں [عیسائی اور مسلمانوں] میں سے کس نے زیادہ
عمل کیا ہے؛ کیونکہ یہ بات کہنا بالکل درست ہے کہ سب [یہودیوں اور عیسائیوں] نے مل
کر مسلمانوں سے زیادہ عمل کیا ہے" انتہی
" فتح الباری " (2/53) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث سے استدلال کرنے کے مزید
جوابات بھی فتح الباری میں نقل کیے ہیں۔
ابن حزم رحمہ اللہ اس بارے میں کہتے ہیں:
"ظہر کا وقت عصر کے وقت سے ہمیشہ ہر جگہ اور ہر زمانے میں زیادہ ہی ہوتا ہے" انتہی
" المحلى " (2/222) اس کے بعد ابن حزم نے اس بات کو علم فلکیات کے مطابق ثابت بھی
کیا ہے، آپ اس کیلئے "المحلی" کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یا اللہ! بڑا تعجب ہے! اس حدیث میں یہ کہاں سے ثابت ہوتا ہے کہ عصر کا وقت اس وقت
تک شروع نہیں ہوگا جب تک اس کا سایہ دو مثل نہ ہو جائے؟ دلالت کی کونسی قسم سے یہ
ثابت ہوتا ہے؟ یہاں زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ عصر کی نماز کے وقت سے لیکر غروب
آفتاب تک کا دورانیہ ظہر اور عصر کے درمیانی دورانیے سے کم ہے، اور یہ بات واقعی
بلا شک و شبہ صحیح ہے" انتہی
" إعلام الموقعين " (2/404)
لہذا اس حدیث کو عصر کے وقت کیلئے دلیل بنانے کی کوئی وجہ باقی ہی نہیں رہتی۔
2-
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس وقت
گرمی زیادہ ہو تو نماز ٹھنڈے وقت میں ادا کرو؛ کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی حرارت
سے ہوتی ہے)
بخاری: (536) مسلم :(615)
اس حدیث کے متعلق امام کاسانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ٹھنڈ اسی وقت ہوگی جب ہر چیز کا سایہ دو مثل ہو جائے گا؛ کیونکہ گرمی [ایک مثل تک]
کم نہیں ہوگی، خاص طور پر ان کے علاقے[حجاز] میں " انتہی
" بدائع الصنائع " (1/315)
اس کے جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ: مطلوبہ ٹھنڈ ہر چیز کا سایہ ایک مثل ہونے پر بھی حاصل ہو جاتی ہے، چنانچہ اسی بات پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عمل کیا جاتا تھا، کیونکہ گزشتہ حدیث کے بقیہ حصے میں انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: (یہاں تک کہ سایہ ٹیلوں کے برابر ہو جاتا) بخاری: (629)
حافط ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث کے ظاہری الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ
عصر کو اتنا مؤخر کیا کہ ہر چیز کا سایہ ایک مثل ہوگیا" انتہی
" فتح الباری " (2/29) اسی طرح دیکھیں:" الشرح الممتع " (2/98)
3-
امام
سرخسی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہمیں ظہر کا وقت شروع ہونے کے بارے میں یقین ہے، لیکن مختلف احادیث کی وجہ سے ظہر
کے آخری وقت کے بارے میں شک پیدا ہو گیا، تو یقینی بات کو شک کی بنا پر ختم نہیں
کیا جاسکتا" انتہی
" المبسوط " (1/141)
اس دلیل کا جواب اس طرح دیا جاسکتا ہے کہ : ظہر کے آخری وقت کے بارے میں یقینی بات ہمیں مذکورہ بالا صحیح اور صریح احادیث سے ملتی ہے، اور اہل علم بھی اسی کے قائل ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نماز عصر کے ابتدائی وقت کے بارے میں متصادم رائے صرف ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے
منقول ہے، چنانچہ قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "سب اہل علم نے انکی اس رائے سے اختلاف
رکھا ہے، حتی کہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردوں نے بھی ان سے اختلاف رکھا"؛ ان کے
بعد آنے والوں لوگوں نے انکے اس موقف کی تائید کی ہے" انتہی
" فتح الباری " (2/36)
مذکورہ بالا تفصیل سے اس مسئلے میں اختلاف کی وضاحت ہے، اور احناف کا یہ موقف ہے کہ عصر کی نماز جمہور کے مقرر کردہ وقت سےمؤخر ادا کی جائے، اس بارے میں ہم نے ایک کی دلیل ذکر کردی ہے، اور اہل علم کے اس بارے میں دلائل اور جوابات بھی ذکر کر دیے ہیں۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
نمازِ عصر کو پہلے وقت میں ادا کرنا مسنون ہے، اس کی درج ذیل وجو ہات ہیں:
1. اللہ تعالی کا فرمان ہے: ( فَاستَبِقُوا الخَيرَاتِ) نیکیوں کیلئے سبقت کرو[البقرة:148]، لہذا اچھے کاموں کیلئے سبقت کرنی چاہیے۔
2. یہ بات ثابت شدہ ہے کہ نماز کی اول وقت میں ادائیگی افضل ہے۔
3.
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں
کہ : "آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز پڑھا کرتے تھے، اور سورج بلند ہوتا تھا"
بخاری:(547) مسلم :(647) " انتہی
" الشرح الممتع " (2/104)
اس مسئلے کے بارے میں مزید مصادر و مراجع کیلئے دیکھیں:
" المحلى " (2/197) ، " نهاية المحتاج (1/364) ، " فتح القدير " (1/227) ، و "
حاشية الدسوقی" (1/177) ، " الموسوعة الفقهية " (7/173)
مزید تفصیل کیلئے سوال نمبر: (179769) کا مطالعہ کریں۔
دوسرا مسئلہ: عشاء کی نماز کا ابتدائی وقت [یعنی: مغرب کا آخری وقت]
جمہور اہل علم اور احناف کا اس مسئلے کے بارے میں بھی دو اقوال پر مشتمل اختلاف ہے:
پہلا قول:
عشاء کی نماز کا اول وقت سفید شفق غروب ہونے سے شروع ہوتا ہے، سرخ شفق غروب ہونے
سے نہیں ہوتا، جبکہ سفید شفق سرخ شفق کے مقابلے میں بارہ منٹ بعد غروب ہوتی ہے، یہ
موقف امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ہے۔
احناف نے اس بارے میں درج ذیل دلائل دئیے ہیں:
1- محمد بن فضیل کہتے ہیں ہمیں اعمش نے بیان کیا، انہوں نے ابو صالح کے واسطے سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً نقل کیا ہے کہ: "مغرب کا اول وقت سورج غروب ہونے سے شروع ہوتا ہے، اور آخری وقت شفق غائب ہونے تک ہے" اس روایت کو امام احمد نے مسند : (12/92) میں اور ترمذی: (151) میں روایت کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ "شفق اس وقت غائب ہوتی ہے جب سرخی کے بعد پیدا ہونے والی سفیدی ختم ہو جائے، اور جب تک سفیدی غائب نہ ہو تو شفق غروب نہیں ہوتی"
لیکن اس حدیث کے متعلق متقدم ائمہ محدثین اس بات پر متفق ہیں کہ یہاں وہم لگا ہے، اس کی وضاحت یہ ہے کہ محمد بن فضیل نے اس حدیث کو مرفوع بیان کیا ہے، وگرنہ اعمش سے بیان کرنے والوں میں یہ بات معروف ہے کہ اعمش نے اس روایت کو مجاہد سے مرسل روایت کیا ہے، اس روایت کے بارے میں یہی حکم بخاری، یحیی بن معین، ابو حاتم، ترمذی، اور دارقطنی وغیرہ نے بھی لگایا ہے، ان ائمہ محدثین رحمہم اللہ کی اس بارے میں گفتگو کیلئے مسند احمد مطبوعہ از: مؤسسہ رسالہ (12/94-95) کی جانب رجوع کریں۔
2-
اقوال صحابہ
کمال ابن ہمام رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابو بکر صدیق، معاذ بن جبل، عائشہ، ابو ہریرہ اور [ایک روایت کے مطابق]ابن عباس
رضی اللہ عنہم سے یہی منقول ہے، اسی کے عمر بن عبد العزیز، اوزاعی، مزنی، ابن
المنذر، خطابی رحمہم اللہ قائل تھے، اسی موقف کو مبرد، اور ثعلب نے اختیار کیا تھا"
انتہی
" فتح القدير " (1/223)
3-
یہی موقف محتاط ہے، اور اسی موقف پر یقینی طور سے عمل کیا جاسکتا ہے، جیسے کہ "
فتح القدير " (1/223)میں ہے:
"درست بات یہ ہے کہ جب یہ شک ہو کہ شفق سفیدی کا نام ہے یا سرخی کا؟ تو شک کی بنا
پر فیصلہ نہیں کیا جائے گا، اور ویسے بھی محتاط بات یہی ہے کہ مغرب کے وقت کو سفیدی
تک رکھا جائے؛ کیونکہ مغرب اور عشاء کے وقت کے درمیان کوئی فارغ وقت نہیں ہے، یہی
وجہ ہے کہ مغرب کا وقت ختم ہوتے ہی عشاء کا وقت متفقہ طور پر شروع ہو جاتا ہے، اور
قبل از وقت نماز ادا کرنا درست نہیں ہے، اس لئے احتیاط اسی بات میں ہے کہ عشاء کی
نماز کا وقت تاخیر سے شروع ہو" انتہی
دوسرا قول: عشاء کی نماز کا وقت شفق کی سرخی غائب ہونے سے شروع ہوتا ہے، یہ موقف جمہور فقہائے کرام کا ہے۔
اس بارے میں امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہمارا موقف یہ ہے کہ شفق سے مراد سرخی ہے، صاحب کتاب: "التہذیب" نے اسی موقف کو
اکثر اہل علم سے نقل کیا ہے، بیہقی نے سنن کبری میں عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب،
ابن عمر، ابن عباس، ابو ہریرہ، عبادہ بن صامت، اور شداد بن اوس رضی اللہ عنہم سے،
اسی طرح مکحول، اور سفیان ثوری سے نقل کیا ہے، اسی طرح بیہقی نے اسی بات کو نبی
صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعا بھی بیان کیا ہے، لیکن یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم سے مرفوعا ثابت نہیں ہے، نیز یہی موقف ابن المنذر نے ابن ابی لیلی، مالک،
ثوری، احمد، اسحاق، ابو یوسف، اور محمد بن حسن سے روایت کیا ہے، یہی موقف ابو ثور،
اور داود رحمہم اللہ جمیعا کا ہے۔
ہمارے فقہائے کرام نے شفق سے مراد سرخی ہونے کے متعلق حدیث اور قیاس کو دلیل بنانے
کی کوشش کی ہے، لیکن ان میں سے کوئی بھی واضح دلالت نہیں کرتی، چنانچہ یہاں پر عرب
کے عرفِ عام پر اعتماد کیا جائے گا، کہ شفق سے مراد سرخی ہے، یہی بات انکے شعر و
نثر میں مشہور ہے، مشہور لغوی ائمہ کرام نے بھی یہی نقل کیا ہے، چنانچہ ازہری رحمہ
اللہ کہتے ہیں:
"عرب کے ہاں شفق سے مراد سرخی ہے"
فراء کہتے ہیں کہ:
"میں نے کچھ عرب کو کسی کے سرخ لباس پہننے پر کہتے ہوئے سنا ہے کہ: "اس نے شفق کے
رنگ میں رنگے ہوئے کپڑے پہنے ہوئے ہیں""
ابن فارس "المجمل "میں کہتے ہیں کہ خلیل کہتے ہیں:
"شفق اس سرخی کو کہتے ہیں جو غروب آفتاب سے عشاء کے وقت تک افق میں ہوئی ہے"
ابن فارس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ابن درید بھی سرخی کو شفق کہتے تھے" یہ لغوی ائمہ
کرام کی گفتگو ہے، اللہ تعالی ہی سمجھنے کی توفیق دے" انتہی
" المجموع شرح المهذب " (3/ 43)
مزید تفاصیل پڑھنے کیلئے دیکھیں:" الحاوی الكبير " (2/23-25) ، " المغنی " از: ابن قدامہ(1/278)
خلاصہ یہ ہوا کہ : احناف کے ہاں عشاء کی نماز کا وقت جمہور کی بہ نسبت قدرے تاخیر سے شروع ہوتا ہے، جسکی مقدار " الموسوعة الفقهية الكويتية " (7/175) کے مطابق تقریباً بارہ منٹ ہے، اور عصر کی نماز کا وقت احناف کے ہاں مختلف علاقوں اور موسموں کے اعتبار سے تقریباً تیس منٹ یا اس سے بھی زیادہ دیر سے شروع ہوتا ہے، جبکہ صحیح ترین موقف ان دونوں مسائل میں جمہور علمائے کرام کا ہے۔
واللہ اعلم.