اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

تلاوت كے بعد صدق اللہ العظيم كہنا

02-03-2009

سوال 2209

كيا تلاوت كرنے كے بعد صدق اللہ العظيم كہنا بدعت ہے اور اگر واقعى بدعت ہے تو يہ اسلام ميں كيسے داخل ہوا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اكثر لوگوں كى عادت ہے كہ جب تلاوت سے فارغ ہوتے ہيں تو صدق اللہ العظيم كہتے ہيں يہ مشروع نہيں كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا نہيں كيا، اور نہ ہى صحابہ كرام كى عادت تھى، اور پھر تابعين كے دور ميں بھى ايسا نہيں ہوا، بلكہ يہ آخرى دور ميں كچھ قراء حضرات كى جانب سے جارى ہوا جنہوں نے اللہ تعالى كے فرمان ( قل صدق اللہ ) سے دليل ليتے ہوئے بطور استحسان كہنا شروع كيا، ليكن يہ استحسان مردود ہے كيونكہ اگر يہ اچھا اور بہتر ہوتا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام اور تابعين عظام اس پر ضرور عمل كرتے، كيونكہ وہ اس امت كے سلف ہيں.

رہا فرمان بارى تعالى:

قل صدق اللہ .

اس سے يہ مراد نہيں كہ جب تلاوت ختم كى جائے تو صدق اللہ كہا جائے، اگر اس سے يہى مراد ہوتى تو اللہ تعالى يہ فرماتا: كہ جب تم قرآت سے فارغ ہو تو صدق اللہ كہا كرو، جس طرح يہ فرمايا كہ:

تو جب تم قرآن مجيد كى تلاوت كرو تو اعوذ باللہ من الشيطان الرجيم كہو .

مذكورہ آيت سے دليل لے كر صدق اللہ العظيم كہا بدعت ہے، بلكہ يہ فرمان تو اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كے ليے سب كچھ كھانا حلال قرار ديا صرف وہى جو يعقوب عليہ السلام نے خود اپنے ليے حرام كيا تھا اس كى خبر ديتے ہوئے فرمايا ہے:

كہہ ديجئے تورات لا كر پڑھو اگر تم سچے ہو، جو كوئى بھى اس كے بعد اللہ تعالى پر افترا پردازى كرتا ہے تو يہى لوگ ظالم ہيں، كہہ ديجئے اللہ تعالى نے سچ فرمايا ہے، لہذا تم ملت ابراہيم كى يكسو ہو كر پيروى كرو، اور وہ مشركوں ميں سے نہ تھے .

اگر اس سے قرآن مجيد كى تلاوت سے فارغ ہو كر صدق اللہ كہنا مراد ہوتا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس كے علم كا زيادہ حق ركھتے تھے، اور وہ اس پر سب سے پہلے خود عمل كرتے، جب ايسا نہيں ہوا تو پھر اس سے يہ مراد نہيں ہے.

خلاصہ:

قرآن مجيد كى تلاوت سے فارغ ہو كر صدق اللہ العظيم بدعت ہے مسلمان كو ايسا نہيں كرنا چاہيے.

اللہ تعالى نے جو كچھ فرمايا ہے اس كى سچائى كا اعتقاد ركھنا مسلمان كے ليے فرض ہے، كيونكہ جس شخص نے بھى اللہ تعالى كے كسى فرمان يا اس ميں سے كسى چيز كو جھٹلايا يا اس ميں شك كيا تو وہ كافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے، اللہ اس سے محفوظ ركھے.

اور جو كسى مناسبت سے مثلا جن اشياء كى اللہ تعالى نے خبر دى ہے وہ واقع ہو تو اس وقت كسى شخص كا بطور تاكيد صدق اللہ يعنى اللہ نے سچ فرمايا كہنا جائز ہے، كيونكہ سنت سے يہ ثابت ہے.

ايك بار رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے كہ حسن اور حسين رضى اللہ تعالى عنہما آئے تو آپ نے منبر سے اتر كر انہيں اٹھايا اور اپنے سامنے بٹھا كر فرمايا: اللہ تعالى نے سچ فرمايا ہے كہ:

يقينا تمہارے مال اور تمہارى اولاد فتنہ ہيں .

ديكھيں: ازالۃ الستار عن الجواب المختار ابن عثيمين ( 79 - 80 ).

واللہ اعلم .

بدعت
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔