"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
اگر كوئى شخص آئے اور نماز ميں مل جائے اور امام ركوع ميں ہو ليكن اس نے " سمع اللہ لمن حمدہ " نہيں كہا تو كيا اس كى يہ ركعت شمار ہو گى يا نہيں؟ اور كيوں ؟
الحمد للہ.
جب مقتدى امام كے ساتھ ركوع ميں ملے تو اس كى تين حالتيں ہيں:
1 - مقتدى تكبير تحريمہ كھڑے ہو كر كہے اور پھر ركوع كرے اور امام ركوع كى حالت ميں ہو.
تو اس حالت ميں وہ امام كے ساتھ ركعت پا لے گا.
2 - مقتدى تكبير تحريمہ كہے اور امام ركوع ميں ہو، ليكن مقتدى نے ركوع امام كے ركوع سے اٹھ جانے كے بعد كيا.
تو اس حالت ميں اس كى امام كے ساتھ ركعت شمار نہيں ہو گى، بلكہ وہ اس ركعت كى قضاء كرے گا.
3 - مقتدى سيدھا ركوع ميں چلا جائے اور تكبير تحريمہ نہ كہے.
تو اس حالت ميں اس كى نماز باطل ہے، كيونكہ اس نے نماز كے اركان ميں سے ايك ركن چھوڑ ديا ہے، جو كہ تكبير تحريمہ ہے.
فقھاء كرام اس پر متفق ہيں كہ جس نے امام كے ساتھ ركوع پا ليا اس نے ركعت پالى، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے ركوع پا ليا اس نے ركعت پا لى "
ابو داود، علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے ارواء الغليل حديث نمبر ( 496 ) ميں صحيح قرار ديا ہے، اور صفحہ نمبر ( 262 ) ميں كہتے ہيں: اس حديث كو صحابہ كرام كى ايك جماعت كے اس پرعمل سے بھى تقويت حاصل ہوتى ہے.
اول:
ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ كا كہنا ہے:
" جس نے امام كو ركوع كى حالت ميں نہ پايا اس نے ركعت نہيں پائى "
اس كى سند صحيح ہے.
دوم:
عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كہتے ہيں:
" اگر آپ آئيں اور امام ركوع كى حالت ميں ہو تو آپ نے امام كے ركوع سے اٹھنے سے قبل اپنے ہاتھ گھٹنے پر ركھ ليے تو آپ نے پا ليا"
اس كى سند صحيح ہے.
سوم:
زيد بن ثابت رضى اللہ تعالى عنہ كہا كرتے تھے:
" جس نے امام كو ركوع سے اٹھنے سے قبل پا ليا تو اس نے ركعت پا لى "
اس كى سند جيد ہے... انتھىز
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ الكويتيۃ ( 23 / 133 ) اور المغنى ابن قدامۃ المقدسى ( 1 / 298 ).
واللہ اعلم .