اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

عورت كا پينٹ ( پتلون ) اور تيراكى والا لباس پہننا

25-12-2007

سوال 23329

كيا عورت كے ليے كسى دوسرى عورت كے سامنے پينٹ پہن كر بيٹھنا جائز ہے، جو اس كے ستر يعنى ناف اور گھٹنے كا درميانى حصہ واضح كرتى ہو، مثلا اس كى ران كى شكل واضح ہوتى ہو، يا پھر وہ لباس پہلؤوں سے تنگ ہو ؟
اور دوسرا سوال يہ ہے كہ:
كيا عورت كے ليے ساحل پر دوسرى عورتوں كو تيراكى كے لباس ميں ديكھنا جائز ہے، جس سے ناف اور گھٹنے كا كچھ درميانى حصہ ننگا ہوتا ہے اور صرف تھوڑا سا حصہ ہى چھپا ہوتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

عورت كے ليے پينٹ ( پتلون ) پہننى جائز نہيں، چاہے عورتوں كے سامنے ہى ہو.

اور كسى بھى عورت كے ليے سمندرى يعنى تيراكى كا لباس پہننا اور اس لباس ميں لوگوں كے سامنے چاہے وہ مرد ہوں يا عورتيں آنا جائز نہيں، اور جو عورت بھى ايسا كرے وہ اللہ تعالى اور اس كے رسول كے حرام كردہ فعل كا ارتكاب كا مرتكب، اور عذاب اور لعنت كى مستحق ٹھريگى.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جہنميوں كى دو قسميں ہيں جنہيں ميں نے نہيں ديكھا، ايك وہ قوم جن كے ہاتھوں ميں گائے كى دموں جيسے كوڑے ہونگے وہ اس سے لوگوں كو مارينگے، اور وہ لباس پہننے والى ننگى عورتيں جو خود مائل ہونے والى اور دوسروں كو مائل كرنے والى، ان كے سر بختى اونٹوں كى مائل كوہانوں كى طرح ہونگے، وہ نہ تو جنت ميں داخل ہونگى اور نہ ہى جنت كى خوشبو ہى پائينگى، حالانكہ جنت كى خوشبو اتنى اتنى مسافت سے پائى جاتى ہے "

اس حديث كو امام مسلم رحمہ اللہ نے حديث نمبر ( 2128 ) ميں روايت كيا ہے.

اور مسند احمد ميں ہے كہ:

" ان عورتوں پر لعنت كرو، كيونكہ يہ ملعون ہيں "

مسند احمد حديث نمبر ( 7043 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب ( 2043 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ميرى رائے تو يہ ہے كہ مسلمانوں كواس لباس كے پيچھے نہيں بھاگنا چاہيے جو ادھر ادھر سے مسلمانوں ميں آ رہے ہيں؛ اور ان لباسوں ميں بہت سے تو اسلامى لباس كے شايان شان نہيں، اسلامى لباس مكمل ساتر ہے، اور يہ لباس چھوٹے ہوتے ہيں، يا پھر تنگ يا ہلكے اور بہت زيادہ باريك، اس ميں پتلون اور پينٹ وغيرہ بھى شامل ہے، كيونكہ يہ عورت كى ٹانگوں كا مكمل حجم ظاہر كرتى ہے، اور اسى طرح ا سكا پيٹ اور پہلو اور چھاتى وغيرہ بھى واضح ہوتى ہے.

اور يہ پينٹ شرٹ پہننے والى عورت اس حديث كے تحت ان دو قسموں ميں شامل ہوتى ہے جس كا ذكر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے درج ذيل حديث ميں كيا ہے:

" دو قسميں جہنميوں كى ہيں جنہيں ميں نے ابھى نہيں ديكھا: ... وہ لباس پہنے ہوئے ننگى عورتيں " اھـ

ديكھيں: مجلۃ الدعوۃ ( عربى ) ( 1 / 1476 ).

جو عورت بھى ا سكا ارتكاب كرے اسے اس سے منع كرنا اور روكنا ضرورى ہے، اور اسے اللہ تعالى كے عذاب سے ڈرانا چاہيے، اور اسے توبہ كرنے كى دعوت دينى چاہيے.

اور ايسا ننگا لباس پہنى ہوئى عورت كى جانب ديكھنا بھى جائز نہيں، كيونكہ صحيح مسلم ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كوئى بھى مرد كسى مرد كى شرمگاہ اور كوئى بھى عورت كسى عورت كى شرمگاہ كى طرف مت ديكھے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 338 ).

اس حديث كى شرح كرتے ہوئے امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس حديث ميں مرد كا دوسرے مرد كى شرمگاہ اور عورت كا دوسرى عورت كى شرمگاہ ديكھنے كى حرمت بيان ہوئى ہے، اور اس ميں كوئى اختلاف نہيں.

اور اسي طرح مرد كا عورت كى شرمگاہ اور عورت كا مرد كى شرمگاہ ديكھنا بھى بالاجماع حرام ہے " اھـ

اور اس حالت ميں ديكھنے كى حرمت خاوند كو شامل نہيں، كيونكہ دونوں مياں اور بيوى ايك دوسرے كى شرمگاہ ديكھ سكتے ہيں، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور جو اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كرتے ہيں، مگر اپنى بيويوں يا اپنى لونڈيوں پر، تو يقينا يہ لوگ ملامتيوں ميں سے نہيں المؤمنون ( 5 - 6 ).

واللہ اعلم .

عورت کا لباس
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔