"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ہمارے ليے انسان اور حيوان كى شكل بنانى جائز نہيں، تو كيا بچے انسان كا حيوان كى شكل كے كھلونوں سے كھيل سكتے ہيں ؟
الحمد للہ.
شيخ ا بن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جس كھلونے ميں مكمل شكل و صورت نہ ہو بلكہ كچھ اعضاء اور پائے جائيں اور اس كى مكمل خلقت اور شكل واضح نہ ہوتى ہو تو اس كے جائز ہونے ميں كوئى شك نہيں، اور يہ بالكل انہى گڈيوں اور پٹولوں ميں شامل ہونگے جن كے ساتھ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كھيلا كرتى تھيں.
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا والى حديث كو امام بخارى نے حديث نمبر ( 6130 ) اور امام مسلم رحمہ اللہ نے صحيح مسلم حديث نمبر ( 2440 ) ميں روايت كيا ہے.
ليكن اگر وہ مكمل شكل و صورت والا كھلونا ہو، گويا كہ آپ انسان كو ديكھ رہے ہيں، اور خاص كر جب اس ميں حركت يا پھر آواز بھى ہو، تو اس كے جائز ہونے ميں ميرے دل ميں كھٹكا سا ہے؛ كيونكہ يہ بالكل مكمل طور پر اللہ تعالى كى مخلوق بنانے ميں مقابلہ ہے، اور ظاہر ہے جن كھلونوں سے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كھيلا كرتى تھيں وہ اس طريقہ كے نہيں تھے، اس ليے ان سے اجتناب كرنا بہتر اور اولى ہے، ليكن ميں قطعا حرام نہيں كہتا.
اس ليے كہ اس طرح كے امور ميں بچوں كو اس چيز اجازت ہوتى ہے جس كى بڑوں كو اجازت نہيں ہوتى، چنانچہ چھوٹے بچے كى جبلت ميں كھيل كود شامل ہے، اور عبادات ميں كسى چيز كا وہ مكلف بھى نہيں حتى كہ ہم يہ كہيں كہ وہ لہو و لعب اور كھيل تماشے ميں اپنا وقت ضائع كر رہا ہے، اور جب انسان اس طرح كے معاملہ ميں احتياط كرنا چاہے تو پھر وہ اس كے سر كو كاٹ دے، يا پھر اس كھولنے كے سر كو آگ سے گرم كرے حتى كہ نرم ہو جائے اور پھر وہ اسے دبا كر مسخ كر دے حتى كہ علامات ختم ہو جائيں " اھـ.