"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
مسلمانوں کو ہمیشہ سے تاریخی کتب کے جھوٹے قصوں اور واقعات کی وجہ
سے مشکلات کا سامنا رہا ہے، اگر کوئی عقل مند اس فرمانِ باری تعالی پر غور کرے:
(
تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا
كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ
)
ترجمہ: یہ امت ہے جو گزر گئی جو اس نے کمایا اس کیلیے وہی ہےاور تمہارے لئے وہ
ہےجو تم نے کمایا، اور تم سے ان کے اعمال کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔[
البقرة:134]
اور پھر اس آیت پر عمل کرتے ہوئے اپنی زبان کو لگام دے، اور فتنوں سے متعلقہ گفتگو
میں مت پڑے، تاکہ اللہ کے سامنے جب جائے تو اس نے کسی پر ظلم نہ کیا ہو، نبوی
خانوادے سے محبت کرے اور ان کے دشمنوں سے دشمنی روا رکھے تو وہ اپنے رب کے ہاں متقی
شخص ہو گا اور اس کا دین بھی صحیح سلامت ہوگا۔
مسلمانوں کے ما بین ہونے والے اختلافات اور جھگڑوں کو بیان کرنے
والے عام طور پر راوی جھوٹے ، نا معلوم اور کذاب ہوتے ہیں، اس لیے ان راویوں کی
جانب سے بیان کردہ روایات پر بالکل بھی اعتماد نہیں کرنا چاہیے؛ کیونکہ وہ عادل
راوی نہیں ہیں، جبکہ کسی کی بات پر اعتماد کرنے کیلیے اللہ تعالی نے اصول بیان
فرمایا کہ:
(
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا
أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ
)
ترجمہ: اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو اس کی تاکید کر
لو [مبادا] تم کسی قوم کو لا علمی کی بنا پر کوئی گزند پہنچاؤ اور پھر تمھیں اپنے
کیے پر ندامت اٹھانی پڑے۔[ الحجرات:6]
انہی جھوٹے قصوں میں سے وہ ہے جو طبرانی نے اپنی کتاب "تاریخ": (5/461) میں اور
ابن عساکر نے "تاریخ دمشق" (69/176) میں ابو مخنف کی سند سے بیان کیا ہے کہ وہ
حارث بن کعب سے وہ فاطمہ بنت علی سے بیان کرتے ہیں کہ: "جس وقت ہمیں یزید بن معاویہ
کے سامنے بٹھایا گیا تو اس نے ہمارے ساتھ نرم لہجہ اپنایا اور ہمیں کچھ دینے کا حکم
دیا، اور اچھا برتاؤ کیا، وہ مزید کہتی ہیں کہ: اہل شام میں سے سرخ رنگ کا آدمی
یزید کے پاس گیا اور اس سے کہا: "امیر المؤمنین! یہ لڑکی -یعنی میں فاطمہ بنت
علی-مجھے ہبہ کردیں" اور میں خوبرو لڑکی تھی، تو میں یہ سن کر کانپ گئی اور سہم گئی،
اور سمجھنے لگی کہ ان کیلیے ایسا کرنا جائز ہے، تو میں نے اپنی بہن زینب کے کپڑے
پکڑ لیے ، زینب مجھ سے بڑی اور سمجھدار تھیں ، نیز انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ ایسا
نہیں ہو سکتا، تو انہوں نے کہا:
"اللہ کی قسم! تم غلط کہتے ہو، تم کمینے ہو! یہ بات نہ تیرے لیے جائز ہے اور نہ ہی
اس [یزید] کیلیے۔
تو یزید نے کہ: تم غلط کہتی ہو! یہ بات میں کر سکتا ہوں، اور اگر میں چاہوں تو اسے
پورا بھی کر سکتا ہوں۔
تو زینب نے کہا: تم ہر گز ایسا نہیں کر سکتے! اللہ تعالی نے تمہارے لیے ایسا کرنے
کی کوئی گنجائش نہیں رکھی، الا کہ تم ہمارے دین سے خارج ہو جاؤ، اور کسی دوسرے دین
کے پیرو کار بن جاؤ۔
فاطمہ کہتی ہیں: یہ سن کر یزید غصہ سے لال پیلا ہو گیا ۔
اور کہنے لگا: کیا تم مجھے اس انداز سے مخاطب کرتی ہو! دین سے تو تمہارا باپ اور
بھائی خارج ہو چکا ہے۔
تو زینب نے کہا: اللہ کے دین ، میرے والد، بھائی اور نانا کے دین پر ہی تو تیرا
باپ، اور دادا ہدایت یافتہ ہوئے تھے۔
یزید نے کہا: اللہ کی دشمن! تم غلط کہتی ہو!
زینب نے کہا: تو ہم پر مسلط کیا گیا حکمران ہے، ظلم کرتے ہوئے گالیاں دیتے ہو! اور
اپنی طاقت کے بل بوتے پر مسلط ہو۔
زینب کہتی ہیں کہ : پھر ایسا محسوس ہوا کہ یزید کو کچھ شرم آئی اور خاموش ہو گیا،
اس پر اُس شامی شخص نے دوبارہ مطالبہ کیا کہ: "امیر المؤمنین! یہ لڑکی مجھے ہبہ کر
دیں"
تو یزید نے کہا: اللہ تجھے نیست و نابود کرے !تو بن بیاہے ہی رہے گا"
ابن کثیر نے اسے ابو مخنف کی سند کیساتھ البداية والنهاية (11/562) میں اسی طرح
بیان کیا ہے ۔
جبکہ ابو مخنف کا نام : لوط بن یحیی ہے ، اس کے بارے میں امام ذہبی
رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"
أخباري تالف، لا يوثق به. تركه أبو حاتم وغيره
"پرلے درجے کا قصہ گو ہے، اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا، اسے ابو
حاتم وغیرہ نے ترک کر دیا تھا۔
دارقطنی کہتے ہیں: ضعیف ہے۔
ابن معین کہتے ہیں: "
ليس بثقة
"یعنی: یہ ثقہ نہیں ہے، اور ایک بار یہ بھی کہا ہے کہ: "
ليس بشيء
"یعنی: اس کی کوئی حیثیت نہیں۔
ابن عدی کہتے ہیں کہ: "
شيعي محترق، صاحب أخبارهم
"کٹر شیعہ تھا اور انہی کے قصے بیان کرتا تھا"
دیکھیں: ميزان الاعتدال (3 /419)
لہذا یہ روایت ہی صحیح نہیں ہے بلکہ جھوٹ ہے۔
اسی طرح کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ یزید بن معاویہ چھڑی سے حسین رضی اللہ عنہ کے
دانتوں کو چھیڑ رہا تھا تو اس پر زینب نے کہا:
" یزید! کیا تو سمجھتا ہے کہ تو نے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے تنگ کر
دئیے ہیں اور ہمیں ایسے ہانکا گیا جیسے لونڈیوں کو ہانکا جاتا ہے، اس طرح تو اللہ
کی بارگاہ میں سرفراز ہو گیا اور ہم رسوا ہو گئے ہیں؟ کیا تیرے خیال میں یہ سب کچھ
اللہ کی بارگاہ میں تیرے شان و مقام کی وجہ سے ہے؟ آج تو اپنی ناک اٹھائے پھر رہا
ہے ، مسرت و شاد مانی سے سرشار ہو کر مغرور ہے۔ آزاد کردہ غلاموں کی اولاد! کیا یہ
تیرا انصاف ہے کہ تو نے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ
فراہم کیا ہوا ہے جبکہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی بیٹیوں در بدر پھرا رہا ہے ۔
تو نے ان کی بے پردگی کی اور ان کے چہرے سب کیلیے عیاں کیے ، تیرے حکم پر دشمنوں
نے انہیں شہر شہر پھرایا ۔۔۔"
یہ قصہ بے بنیاد ہے اہل علم کی کتابوں میں اس کا کوئی تصور ہی نہیں ہے، اس قصہ کو بیان کرنے کیلیے صرف رافضیوں کی کتابیں ہیں جو کہ جھوٹ بولنے میں مشہور ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"صحیح بخاری میں جو بات ثابت ہے کہ: حسین رضی اللہ عنہ کا سر عبید اللہ بن زیاد کے
سامنے لایا گیا اور وہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے سامنے حسین رضی اللہ عنہ کے
اگلے دانتوں کو چھڑی سے کریدنے لگا"
جبکہ مسند میں ہے کہ: "یہ ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں ہوا"
لیکن کچھ لوگ منقطع سند کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ یہ یزید بن معاویہ کے موجودگی
میں ہوا تھا، لیکن یہ بات بالکل باطل ہے" انتہی
مجموع الفتاوى (27/ 469)
اسی طرح انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ:
"یزید بن معاویہ شام میں تھا، حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت وہ عراق میں نہیں
تھا، چنانچہ جو یہ بات نقل کرتا ہے کہ یزید بن معاویہ کی موجودگی میں عبید اللہ
بن زیاد نے انس بن مالک اور ابو برزہ رضی اللہ عنہ کے سامنے حسین رضی اللہ عنہ کے
دانتوں پر چھڑی سے کریدا یہ بالکل واضح جھوٹ ہے اور متواتر روایات سے اس کا جھوٹ
ہونا معلوم ہوتا ہے" انتہی
مجموع الفتاوى (27/ 470)
دوم:
مشہور و معروف یہ بات ہے کہ یزید بن معاویہ نے حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا تھا اور نہ ہی اسے پسند جانا بلکہ ابن زیاد کو حسین رضی اللہ عنہ کے قتل پر برا بھلا بھی کہا ، نیز حسین رضی اللہ عنہ کے جو اہل خانہ ان کے ساتھ تھے ان کی تکریم بھی کی اور انہیں شایان شان طریقے سے مدینہ واپس بھیج دیا، اپنے پاس نہیں رکھا۔
اس بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یزید بن معاویہ کی پیدائش عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں ہوئی ،
یزید دینداری اور خیر میں مشہور نہیں تھا، نوجوان مسلمان تھا، اس نے اپنے والد کے
بعد حکمرانی کی باگ دوڑ سنبھالی ، اگرچہ کچھ مسلمانوں نے اسے اس لائق نہیں سمجھا ،
اور کچھ اس پر راضی تھے ، تاہم اس میں بہادری اور سخاوت کے اوصاف پائے جاتے تھے،
اعلانیہ طور پر گناہوں کا رسیا نہیں تھا جیسے کہ اس کے بارے میں ان کے مخالفین
کہتے ہیں۔
نیز اس نے حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم نہیں دیا، اور نہ ہی حسین رضی اللہ عنہ کے قتل پر اظہارِ خوشی کیا ، نہ ہی حسین رضی اللہ عنہ کے دندان کو چھڑی سے کریدا، نہ ہی حسین رضی اللہ عنہ کا سر شام اس کے پاس لے جایا گیا، تاہم اس نے حسین رضی اللہ عنہ کو روکنے کا حکم دیا تھا، نیز سیاسی معاملات سے باز رکھنے کی کوشش کی تھی چاہے اس کیلیے مسلح راستہ اپنانا پڑے۔
لیکن یزید کے مشیر اس کے حکم سے بھی آگے بڑھ گئے اور شمر بن ذی الجوشن نے عبید اللہ بن زیاد کو قتل کرنے کی ترغیب دلائی ، چنانچہ عبید اللہ بن زیاد نے حسین رضی اللہ عنہ پر تشدد کیا ، تو حسین رضی اللہ عنہ نے ان سے مطالبہ کیا کہ مجھے یزید کے پاس جانے دیں، یا میں اسلامی سرحدوں پر پہرے دار بن جاتا ہوں یا مکہ واپس چلا جاتا ہوں۔
لیکن انہوں نے حسین رضی اللہ عنہ کی کوئی بات نہ مانی اور انہیں گرفتاری دینے کا کہا اور عمر بن سعد کو حسین رضی اللہ عنہ سے لڑنے کا کہا انہوں نے حسین رضی اللہ عنہ کے ان کے اہل خانہ کے ساتھ قتل کر دیا، اللہ تعالی حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل خانہ سے راضی ہو۔
آپ رضی اللہ عنہ کا قتل بہت بڑا سانحہ تھا، کیونکہ حسین رضی اللہ عنہ اور ان سے پہلے عثمان رضی اللہ عنہ کا قتل اس میں امت میں بڑے بڑے فتنوں کا باعث بنا، نیز ان کے قاتلین اللہ تعالی کے ہاں بد ترین مخلوق ہیں۔
اس کے بعد جب حسین رضی اللہ عنہ کے اہل خانہ یزید بن معاویہ کے پاس آئے تو یزید نے ان کا احترام کیا اور انہیں مدینہ روانہ کر دیا، یزید کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے ابن زیاد پر حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کرنے کی وجہ سے لعنت بھی کی ، یزید نے یہ بھی کہا کہ میں اہل عراق سے حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کے بغیر ہی راضی تھا۔
لیکن ان باتوں کے با وجود یزید نے حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کی مذمت نہیں کی اور نہ ہی حسین رضی اللہ عنہ کیلیے کوئی اقدامات کیے اور قصاص بھی نہیں لیا ، حالانکہ قصاص لینا یزید پر واجب تھا، چنانچہ اسی وجہ سے اہل حق یزید کو اس واجب کے ترک کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر امور کی وجہ سے ملامت کرنے لگے ۔
لیکن یزید کے مخالفین یزید کے خلاف باتیں کرتے ہوئے بہت سی جھوٹی چیزیں بھی شامل کر
دیتے ہیں۔" انتہی
مجموع الفتاوى (3/ 410)
کتب میں یہ بھی موجود ہے کہ یزید کو حسین رضی اللہ عنہ کے قتل پر ندامت ہوئی ، وہ
کہا کرتا تھا: "مجھے کیا ہوتا اگر میں اس تکلیف کو برداشت کر لیتا، اور ان[حسین رضی
اللہ عنہ] کو اپنے گھر میں ٹھہراتا، اور پھر انہیں ان کے بارے میں مکمل خود مختاری
دے دیتا، اگرچہ اس کی وجہ سے مجھے اپنی سلطنت میں کمی اٹھانی پڑتی؛ تا کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خانوادے کے حقوق کی پامالی نہ ہو"
پھر کہا کرتا تھا: "اللہ تعالی مرجانہ کے بیٹے [عبید اللہ بن زیاد]پر لعنت فرمائے
کہ اس نے حسین رضی اللہ عنہ کو باہر نکال کر مجبور کیا ، حالانکہ حسین رضی اللہ عنہ
نے اس سے تین مطالبے کیے تھے: کہ اس کا راستہ چھوڑ دیا جائے، یا وہ میرے [یزید بن
معاویہ کے]پاس آ جائیں، یا پھر مسلمانوں کی سرحدوں پر پہرے دار کی حیثیت بقیہ
زندگی گزاریں یہاں تک کہ اللہ تعالی انہیں موت دے دے، لیکن عبید اللہ نے ایسا نہ
کیا اور انہیں قتل کر دیا، اس طرح سے عبید اللہ نے مسلمانوں میں میرے بارے میں نفرت
پھیلا دی، اور ان کے دلوں میں میرے بارے میں دشمنی کا بیج بو دیا، پھر نیک و بد ہر
شخص مجھ سے نفرت کرنے لگا؛ کیونکہ لوگوں نے حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کو بہت ہی
زیادہ اہمیت دی حالانکہ میرا اس میں کوئی دخل نہیں تھا یہ کارستانی صرف ابن مرجانہ
کی تھی، اللہ تعالی اس پر لعنت فرمائے اور اپنا غضب نازل کرے۔"
البداية والنهاية (11/ 651)، سير أعلام النبلاء (4/370)
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یزید بن معاویہ کے بارے میں سب سے سنگین الزام جو لگایا جاتا ہے وہ شراب نوشی
سمیت دیگر کچھ اور غلط کام ہیں لیکن حسین رضی اللہ عنہ کا قتل نہ تو اس کے حکم سے
ہوا اور نہ ہی اسے برا لگا، جیسے کہ یزید کے دادا ابو سفیان نے احد کے دن کہا تھا۔
اور ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ یزید نے کہا تھا: "اگر میں حسین کے پاس ہوتا تو
ایسا نہ کرتا جیسا ابن مرجانہ یعنی عبید اللہ بن زیاد نے کیا "
اس نے حسین رضی اللہ عنہ کا سر لیکر آنے والوں کو کہا کہ: تمھیں اس سے کم اطاعت بھی
کافی تھی! اور انہیں اس کارستانی پر کچھ نہیں دیا، جبکہ حسین رضی اللہ عنہ کے اہل
خانہ کا احترام کیا اور ان سے چھینا گیا سب مال سمیت بہت کچھ انہیں دیا اور انہیں
بڑے تزک و احتشام کے ساتھ مکمل شایانِ شان انداز میں مدینہ واپس بھیج دیا ، اور جس
دوران حسین رضی اللہ عنہ کے اہل خانہ یزید کے اہل خانہ کے گھر میں تھے تو یزید کے
گھر والوں نے ان کے ساتھ تین دن تک سوگ بھی کیا" انتہی
البداية والنهاية (11/ 650)
یہ سب کچھ یزید کا دفاع یا یزید کی جانب میلان رکھنے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یزید کے بارے میں معتدل رائے ہی یہ ہے کہ: یزید کا حکم دیگر ظالم حکمرانوں جیسا ہے کہ نہ تو اس سے بنائی جائے اور نہ ہی بگاڑی جائے ، اس سے محبت بھی نہ کی جائے اور اسے گالی بھی نہ دی جائے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہی وجہ ہے کہ اہل سنت اور امت اسلامیہ کے ائمہ کرام کا موقف یہ ہے کہ: یزید کو
گالی دی جائے اور نہ ہی اس سے محبت کی جائے، چنانچہ صالح بن احمد بن حنبل کہتے ہیں
: میں نے اپنے والد سے کہا: کچھ لوگ کہتے ہیں کہ: وہ یزید سے محبت کرتے ہیں، تو
میرے والد [امام احمد بن حنبل]نے کہا: "بیٹا! کوئی اللہ تعالی اور آخرت کے دن پر
ایمان لانے والا بھی یزید سے محبت کر سکتا ہے؟
تو اس پر میں نے کہا: اباجی! پھر آپ اس پر لعنت کیوں نہیں کرتے؟
تو انہوں نے کہا: بیٹا! آپ نے اپنے والد کو کبھی کسی پر لعنت کرتے ہوئے دیکھا ہے؟"
انتہی
مجموع الفتاوى (3/ 412)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ:
"
ابو محمد المقدسی کہتے ہیں: جس وقت ان سے یزید کے بارے میں پوچھا گیا-تو جیسے مجھے
بات پہنچی ہے - انہوں نے کہا تھا: اسے گالی دی جائے نہ محبت کی جائے۔
اور مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ہمارے دادا ابو عبد اللہ ابن تیمیہ سے جب یزید کے
بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: "بے عزتی نہ کرو اور نہ ہی احترام کرو"
اور یہ یزید اور اس جیسے دیگر لوگوں کے بارے میں معتدل ترین اور بہترین موقف ہے"
انتہی
مجموع الفتاوى (4/ 483)
یزید کے بارے میں مزید صحیح موقف جاننے کیلیے آپ فتوی نمبر: (23116) کا مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم.