اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

ایک لڑکی کو ہوا خارج ہونے کا عارضہ لاحق تھا چنانچہ کچھ عرصہ نمازیں بھی نہیں پڑھیں، اس کا علاج کیسے کرے؟

13-11-2021

سوال 244009

مجھے ہوا خارج ہونے کا عارضہ لاحق تھا، اسی وجہ سے کچھ عرصہ میں نے نمازیں بھی ادا نہیں کیں، اس عارضے کے ہوتے ہوئے میں نماز کیسے ادا کروں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

بہت سے نمازی بھائیوں اور بہنوں کے لیے وہمی اور حقیقی ہوا خارج ہونے کے بارے میں تفریق مشکل ہو جاتی ہے۔ اس لیے ہم اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ جن لوگوں کو بھی قطرے خارج ہوتے ہیں وہ عام طور پر وسوسوں میں مبتلا ہوتے ہیں، حقیقت میں پیشاب کے راستے سے کچھ بھی خارج نہیں ہوتا، ایسی صورت حال کے علاج کے لیے باہمت شخصیت اور واضح فتاوی کی ضرورت ہوتی ہے؛ تا کہ انسان یقینی باتوں پر عمل کرے اور شکوک و شبہات پر بالکل توجہ نہ دے حتی کہ اگر تھوڑا بہت وہم اور حقیقت آپس میں خلط ملط ہو بھی جائیں تو یہ الحمدللہ معاف ہو گا، مزید برآں یہ بھی ہے وسوسے کا علاج کرتے ہوئے اگر کوئی کمی کوتاہی آبھی جائے تو اللہ تعالی اس پر مواخذہ نہیں فرمائے گا۔ یہ بات بہت ہی اہم ہے ہر وقت آپ کے ذہن نشین ہونی چاہیے۔

دوم:

قطرے خارج ہونے کے بارے میں بہت سے لوگ غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں، انہیں شک ہوتا ہے کہ معمولی نجاست یا ہوا لا شعوری طور پر خارج ہو گئی ہے، اور پھر اسی شک کی بنیاد پر سلس البول کی رخصتوں پر عمل کرنا شروع کر دیتے ہیں، یہ حقیقت میں سلس البول کے بارے میں سطحی معلومات ہیں۔

صحیح بات یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو یہ معلوم ہو کہ فلاں وقت میں -چاہے وہ تھوڑا سا ہی کیوں نہ ہو -سلس البول کی شکایت عام طور پر نہیں ہوتی تو انسان پر لازمی ہے کہ اس وقت تک نماز کو مؤخر کرے اور اسی وقت میں وضو کر کے مکمل ارکان و واجبات کے ساتھ نماز ادا کرے۔

لیکن کوئی شخص یہ سمجھے کہ اگر ایک دن میں دو یا تین بار غیر ارادی طور پر پیشاب کے قطرے خارج ہو جاتے ہیں، یا ایک آدھ بار بے اختیار ہوا خارج ہو جاتی ہے تو وہ سلس البول والی رخصتوں پر عمل کر سکتا ہے، سلس البول کے متعلق یہ غلط تصور ہے۔

صحیح تصور یہ ہے کہ جس شخص کو ہمیشہ ان قطروں یا ہوا کے نکلنے کی شکایت رہتی ہے کوئی بھی وقت ایسا نہیں گزرتا جس میں قطروں یا ہوا کے نکلنے کی شکایت نہ ہو ، اور اتنا بھی وقت نہ ملے کہ نماز ادا کر سکے تو وہی سلس البول کی رخصتوں پر عمل کر سکتا ہے، اور وہ شخص بھی ان رخصتوں پر عمل کر سکتا ہے کہ جسے سلس البول کے منقطع ہونے کا علم ہی نہیں ہے، کسی بھی وقت قطرے نکل آتے ہیں تو وہ رخصت پر عمل کر لے۔

ابن نجیم حنفی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"استحاضہ اور اسی طرح کے کسی اور عذر کا حکم اس وقت تک باقی رہتا ہے جب تک استحاضہ اور یہ عذر نماز کا مکمل وقت نکل جانے تک انسان کے ساتھ باقی رہے چاہے مقدار میں کم ہی کیوں نہ ہو جائے۔" ختم شد
 "البحر الرائق" (1/228)

جبکہ مالکی فقہی موقف میں قدرے تخفیف ہے، چنانچہ مالکی فقہائے کرام کا کہنا ہے کہ:
1- اگر استحاضہ وغیرہ کی وجہ سے بے وضگی نماز کے آدھے وقت سے زیادہ دیر تک قائم رہتی ہے تو پھر وضو ٹوٹ جانے کا حکم نہیں لگے گا، البتہ وضو کرنا مستحب ہو گا۔
2- اور اگر استحاضہ وغیرہ نماز کے آدھے وقت سے زیادہ جاری نہیں رہتا تو پھر وضو نہیں ٹوٹے گا۔

چنانچہ علامہ دردیرؒ کہتے ہیں:
"وضو اس وقت ٹوٹ جائے گا جب سلس البول کی بیماری نماز کے اکثر وقت میں جاری رہتی ہے، لیکن اگر نصف سے کم وقت سلس البول رہے تو پھر وضو کر کے نماز اد ا کرنا ضروری ہو گا۔ اور اگر آدھا وقت سلس البول کا سامنا رہے تو وضو نہیں ٹوٹے گا، نصف سے زیادہ پر ٹوٹے گا۔" ختم شد

اس پر علامہ دسوقیؒ نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
"سلس البول کے بارے میں مصنف علامہ دردیر رحمہ اللہ نے حکم مطلق طور پر بیان کیا ہے، اس لیے اس حکم میں سلس البول، پاخانہ، ہوا کا خارج ہونا، اسی طرح منی، مذی اور ودی وغیرہ بھی شامل ہوں گے۔
یہ واضح رہے کہ مصنف رحمہ اللہ نے سلس البول کے بارے میں جو طریقہ کار بتلایا ہے یہ مراکشی علمائے کرام کا طریقہ کار ہے، اور مالکی فقہی مذہب میں یہی مشہور بھی ہے، جبکہ عراقی مالکی فقہائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ سلس البول سے وضو مطلق طور پر نہیں ٹوٹتا، زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ سلس البول کا ہر وقت سامنا ہونے کی صورت میں وضو کرنا مستحب ہے، چنانچہ اگر نماز کے سارے وقت میں ہی سلس البول کی بیماری کا سامنا رہتا ہے تو پھر وضو کرنا مستحب نہیں ہے۔" ختم شد
"حاشیۃ الدسوقی" (1/116-117)

جبکہ شافعی فقیہ امام نوویؒ کہتے ہیں:
"اگر مستحاضہ عورت کا خون وضو کے بعد منقطع ہو گیا تو وضو کرنے کے بعد خون آئے یا نہ آئے اس کی طرف توجہ نہیں دی جائے گی۔ اور اگر خون منقطع ہونے کا دورانیہ نماز کے وقت سے کافی بڑھ گیا تو پھر وضو کرنا ضروری ہو گا۔" ختم شد
"مغنی المحتاج" (1/283)

ابن قدامہ ؒ کہتے ہیں:
"اگر کسی عورت کا خون خاص وقت تک کے لیے اتنی دیر منقطع ہو کہ وضو اور نماز کے لیے کافی ہو جائے ؛ تو ایسی عورت خون جاری ہونے کی حالت میں نماز ادا نہیں کرے گی اور خون رک جانے کا انتظار کرے گی؛ ہاں اگر نماز کا وقت نکل جانے کا خدشہ ہو تو وضو کر کے نماز ادا کر لے۔" ختم شد
"المغنی" (1/250)

خلاصہ یہ ہوا کہ:
اگر وضو ٹوٹنے کا سبب بنے والی چیز مخصوص وقت کے لیے اتنی دیر تک منقطع ہو کہ نماز ادا کی جا سکتی ہو تو آپ پر لازمی ہے کہ اس کے منقطع ہونے کا انتظار کریں، اور مکمل طہارت کی حالت میں نماز ادا کریں۔

اور اگر تسلسل کے ساتھ وضو توڑ دینے والی چیز کا سامنا رہتا ہے اور اس کے منقطع ہونے کا کوئی پتہ بھی نہیں چلتا بلکہ جب مرضی جاری ہو جائے تو پھر آپ پیڈ یا لنگوٹ اچھی طرح باندھ لیں تا کہ کوئی نجاست نکلے تو کپڑوں کو نہ لگے، اور پھر ہر نماز کے لیے وضو کر کے نماز ادا کرتی جائیں اور آپ نماز پڑھیں چاہے کچھ خارج ہو یا نہ ہو۔

واللہ اعلم

طہارت و پاکيزگی نفسیاتی پریشانیاں
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔