"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
میں نوجوان لڑکا ہوں اور بسا اوقات: یا محمد، یا علی، یا سیدی فلاں وغیرہ کہہ دیتا ہوں۔ اس پر مجھے کسی شخص نے کہا کہ یہ تو شرک ہے! تو میں نے اسے کہا کہ: میں نے ان شخصیات کو اللہ کا شریک نہیں بنایا، میں تو یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ جناب محمد، علی اور سیدی فلاں اللہ کے ہمسر اور شریک نہیں ہیں۔
میں نے ایک واقعہ پڑھا ہے کہ جس میں ایک صحابی کا ذکر ہے کہ اس کے پاؤں کو سن کیا جانا تھا تو اسے معالج نے کہا کہ جس شخص سے تمہیں سب سے زیادہ محبت ہے تم انہیں یاد کرو، تو اس نے یا محمد کہا تو اسے درد نہیں ہوا۔ ایسے ہی مسلمانوں کا ایک معرکے میں شعار ہی "یا محمداہ" تھا، تو اگر یہ لفظ شرک تھا تو صحابہ کرام نے اس سے منع کیوں نہیں کیا؟
ایسے ہی یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے کہا تھا جس کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے: (قَالُوا يَاأَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا) [ترجمہ: انہوں نے کہا: اے ہمارے ابا! ہمارے لیے ہمارے گناہوں کی بخشش مانگیں] یعنی انہوں نے یہ نہیں کہا کہ: یا اللہ! ہمارے گناہ معاف کر دے، تو اگر ان کی یہ بات شرک تھی تو ان کی غلطی پر ٹوکا کیوں نہیں گیا؟
ان تمام تر تفصیلات کے بعد کیا میں اب مشرک ہوں؟ اور اگر میں شرک میں واقع ہو گیا ہوں تو کیا اللہ تعالی مجھے یا کسی مشرک کو معاف فرما دے گا؟
الحمد للہ.
اول:
انسان یا محمد اور یا علی وغیرہ جیسے کلمات کہے تو اس کے بارے میں دو احتمال ہو سکتے ہیں:
1- یہ الفاظ کہتے ہوئے مخاطب کا ذہنی تصور سامنے ہو، اور مخاطب سے مدد یا استغاثہ مراد نہ ہو مثلاً:[دوران گفتگوبطورِ حکایت] اےمحمد کہے، یا یہ کہے کہ : "اے محمد! آپ پر اللہ تعالی رحمتیں نازل فرمائے" تو یہ شرک نہیں ہے؛ کیونکہ اس میں غیر اللہ سے دعا اور مدد مقصود نہیں ہے۔
اس بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"[کوئی شخص کہے] "یا محمد! یا نبی اللہ!" تو یہ اور اس جیسے ندائیہ جملے جن میں ایسی شخصیات کا ذہنی تصور مقصود ہوتا ہے جو دل میں موجود ہیں تو ان میں مخاطب کے انداز میں دل میں موجود شخصیت کو الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے، جیسے کہ نمازی اپنی نماز میں کہتا ہے: (اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ)[اے نبی آپ پر سلامتی ہو، اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں] تو ایسے جملے انسان اپنی گفتگو میں کئی بار استعمال کرتا ہے کہ ذہنی تصور میں موجود انسان کو مخاطب کرتا ہے اگرچہ وہ حقیقت میں آپ کے سامنے نہ بھی ہو اور آپ کی بات نہ سن رہا ہو " ختم شد
" اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم " (2/319)
2- اس طرح کے ندائیہ جملے میں واضح طور پر مدد اور استغاثہ ہو مثلاً کوئی کہے: "یامحمد مدد" یا پھر غیر صریح انداز میں مدد طلب کی جائے؛ مثلاً کوئی شخص بھاری پتھر اٹھاتے ہوئے کہے: "یا محمد" اور [یا علی] وغیرہ کہے تو پھر یہ غیر اللہ سے مدد کا مطالبہ ہے اور ہر دو صورت میں شرک ہے؛ کیونکہ اس نے غیر اللہ کو پکارا ہے، نیز مردوں اور غیر موجود افراد کو پکارنا شرک ہے، جیسے کہ اس بارے میں واضح نصوص اور مسلمانوں کا اجماع موجود ہے۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
(فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ أُولَئِكَ يَنَالُهُمْ نَصِيبُهُمْ مِنَ الْكِتَابِ حَتَّى إِذَا جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا يَتَوَفَّوْنَهُمْ قَالُوا أَيْنَ مَا كُنْتُمْ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ قَالُوا ضَلُّوا عَنَّا وَشَهِدُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَافِرِينَ)
ترجمہ: بھلا اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جو اللہ کے ذمے جھوٹ لگا دے یا اس کی آیتوں کو جھٹلا دے۔ایسے لوگوں کو ان کا وہ حصہ تو (دنیا میں) ملے گا ہی جو ان کے مقدر میں ہے۔ یہاں تک کہ جب ان کی روحیں قبض کرنے کے لئے ہمارے فرستادہ (فرشتے) ان کے پاس آئیں گے تو ان سے پوچھیں گے : "وہ تمہارے (الٰہ) کہاں ہیں جنہیں تم اللہ کے سوا پکارا کرتے تھے ؟ " وہ جواب دیں گے : " ہمیں کچھ یاد نہیں پڑتا " اس طرح وہ خود ہی اپنے خلاف گواہی دے دیں گے کہ وہ کافر تھے [الأعراف:37]
اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے: (وَلا تَدْعُ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لا يَنْفَعُكَ وَلا يَضُرُّكَ فَإِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذاً مِنَ الظَّالِمِينَ)
ترجمہ: اور اللہ کے سوا کسی کو مت پکاریں جو نہ آپ کو کچھ فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان اگر آپ ایسا کریں گے تو تب یقیناً ظالموں سے ہوجائیں گے [يونس:106]
ایک اور مقام پر فرمایا: (فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ)
ترجمہ: پھر جب یہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کی مکمل حاکمیت کو تسلیم کرتے ہوئے خالصتاً اسے ہی پکارتے ہیں اور جب وہ انہیں بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو اس وقت پھر شرک کرنے لگتے ہیں [العنكبوت:65] یہاں پر " يُشْرِكُونَ " کا مطلب یہ ہے کہ وہ غیر اللہ کو پکارنے لگتے ہیں۔
ایسے ہی ایک اور مقام پر فرمایا: (وَمَنْ يَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهاً آخَرَ لا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِنْدَ رَبِّهِ إِنَّهُ لا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ)
ترجمہ: اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی اور الٰہ کو پکارتا ہے جس کی اس کے پاس کوئی دلیل نہیں، تو اس کا حساب اس کے پروردگار کے سپرد ہے۔ ایسے کافر کبھی کامیاب نہ ہوں گے۔ [المؤمنون:117]
تو یہ حکم غیر اللہ کو پکارنے والے سب لوگوں کے لیے ہے، چنانچہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انسان جس شخص کو مدد کے لیے پکار رہا ہے اسے معبود کہے یا نہ کہے، یا اسے سید کہے، یا ولی کہے یا قطب کا نام دے؛ کیونکہ لغوی اعتبار سے معبود کو ہی الٰہ کہتے ہیں، لہذا اگر کوئی شخص غیر اللہ کی بندگی کرتا ہے تو اس نے اس شخص کو الٰہ اور معبود بنا لیا ہے چاہے اپنی زبان سے اس چیز کا انکار کرے۔
اس بارے میں اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں اس مسئلے کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
ایسے ہی صحیح بخاری (4497) میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص اس حال میں مرے کہ وہ غیر اللہ کو پکارتا تھا تو وہ جہنم میں داخل ہو گیا)
نیز علمائے کرام نے ایسے شخص کے کافر ہونے پر اجماع نقل کیا ہے جو اپنے اور اللہ کے درمیان واسطے قائم کر کے انہیں اپنی دعاؤں میں پکارتا ہے، ان سے اپنی ضروریات مانگتا ہے، چنانچہ علمائے کرام نے اس حکم سے کسی کو بھی استثنا نہیں کیا چاہے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ہی بطور واسطہ مان کر ان سے مانگا جائے یا کسی اور سے مانگا جائے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جو شخص بھی فرشتوں اور انبیائے کرام کو اپنے لیے واسطہ بنا کر ان سے ہی دعا مانگتا ہے اور ان پر ہی توکل کرتا ہے ، انہی سے مشکل کشائی اور حاجت روائی کا مطالبہ کرتا ہے ، مثلاً ان سے بخشش طلب کرے یا ہدایت مانگے، مصیبتیں ٹالنے کی استدعا کرے، فاقہ کشی کے خاتمے کا مطالبہ کرے تو وہ تمام مسلمانوں کے مطابق کافر ہے" انتہی
"مجموع الفتاوى" (1/124)
مذکور اجماع کو متعدد اہل علم نے اپنی کتابوں میں تسلیم کرتے ہوئے نقل کیا ہے اس کے لیے آپ "الفروع" از ابن مفلح 6/165 ، "الإنصاف" 10/327 ، "كشاف القناع" 6/169 ، اور "مطالب أولي النهى" 6/279 دیکھیں۔
بلکہ کشاف القناع میں اس اجماع کو مرتد کے حکم کے باب میں ذکر کرنے کے بعد یہ بھی کہا گیا ہے کہ: "کیونکہ یہ عمل بت پرستوں کے عمل جیسا ہے وہ بھی یہی کہا کرتے تھے کہ: مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیتے ہیں۔ [الزمر: 3] " ختم شد
دوم:
قرآن مجید میں یا احادیث مبارکہ میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس سے اس شرک کے جواز کی دلیل لی جا سکے؛ چہ جائیکہ اس شرک کی دعوت دی جائے اور اس کی ترغیب دلائی جائے، اور ایسا ہو بھی کیسے سکتا ہے کہ جس چیز کو اللہ تعالی نے قرآن مجید میں شرک اور کفر اکبر کہا ہے تو ایسے عمل کو کوئی نص شرعی مباح اور جائز کیسے قرار دیتی ہو!
آپ نے سوال میں جو واقعہ ذکر کیا ہے کہ صحابی کے بارے میں جن کا پاؤں سن کیا جانا تھا تو اس کی تو سند ہی صحیح ثابت نہیں ہے، اور اگر صحیح ثابت ہو بھی جائے تو یہ ہمارے لیے دلیل نہیں ہے؛ کیونکہ یہ تو ذہنی تصور میں موجود شخص کو لفظوں میں مخاطب کرنے سے تعلق رکھتا ہے، اس میں غیر اللہ سے مدد طلب کرنے کا عنصر ہی موجود نہیں ہے۔
اس واقعے کے بارے میں تفصیلی طور پر سوال نمبر: (162967) کے جواب میں گفتگو گزر چکی ہے۔
سوم:
معرکوں کے دوران صحابہ کرام کی جانب سے "یا محمداہ" یا پھر "وا محمداہ" کا شعار استعمال کرنا ثابت نہیں ہے؛ جیسے کہ اس کی تفصیل آئندہ آئے گی۔ لیکن اگر یہ صحیح ثابت بھی ہو تو تب بھی یہ استغاثہ اور مدد طلب کرنے کے معنی میں نہیں ہو گا؛ کیونکہ ان الفاظ میں کوئی طلب یا مدد کا مطالبہ نہیں ہے، بلکہ اسے تو عربی ادب میں "النُدْبَة" کہتے ہیں اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی کی خاطر آپ میدان معرکہ میں چلا اٹھیں، تو مسلمان یہ لفظ بول کر اپنے جنگجو ساتھیوں کو جوش اور جذبہ دلاتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خاطر جان کی بازی لڑا دو، آپ کے دین کے لیے جان نثار کر دو، تو یہ ان کے "وا إسلاماه"کہنے کی طرح ہی ہے، [یعنی اسلام کے لیے اٹھ کھڑے ہو]
عربی ادب میں ندبہ "وا" اور اسی طرح "یا" دونوں کے ساتھ ہوتا ہے، تاہم آخر الذکر کے استعمال میں شرط یہ ہے کہ التباس کا خطرہ نہ ہو، جیسے کہ ابن مالک نے اپنی الفیہ میں لکھا ہے کہ:
... و(وا) لمن نُدب * أو (يا) ، وغير (واو) لدى اللبس اجتُنب
ترجمہ: "وا" ندبہ کے لیے ہے اور "یا" بھی، تاہم غیر "وا" اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب التباس کا اندیشہ نہ ہو۔
اس کی شرح میں اشمونی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابن مالک کا قول: "و(وا) لمن نُدب" یعنی جس کے لیے ندبہ کرنا مقصود ہے یعنی جس کو ابھارنا مقصود ہے یا جس چیز کی وجہ سے تکلیف ہے اسے بیان کرنا مقصود ہے، اس کی مثال : "وا ولداه" [ہائے میرا بچہ] اور اسی طرح "وا رأساه"[ہائے میرا سر] اور "یا" کے ذریعے ندبہ کی مثال: "يا ولداه" اور اسی طرح "يا رأساه"۔ ابن مالک کا قول: "وغير (واو)" سے مراد "یا" ہے، یعنی جس وقت التباس کا اندیشہ نہ ہو تو پھر "یا "کے ذریعے ندبہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کی مثال اس شعر میں ہے:
حَمَلتَ أَمْرَاً عَظِيمَاً فَاصْطَبَرْتَ لَهُ *** وَقُمْتَ فِيهِ بِأَمْرِ اللَّهِ ؛ يَا عُمَرَا
لیکن اگر التباس کا خدشہ ہو تو پھر "وا" کے ذریعے ہی ندبہ ہو گا" ختم شد
"الأشموني على ألفية ابن مالك "(1/ 233)
اسی ندبہ کی یہ مثال بھی ہے جس میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے وقت فرماتی ہیں: "يا أبتاه أجاب ربا دعاه"اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں" وا أبتاه أجاب ربا دعاه"
اسی طرح صحیح بخاری (4462)میں انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: "جس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم نڈھال ہو گئے اور غشی طاری ہونے لگی تو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: " وا كرب أباه!!"
تو اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تمہارے والد پر آج کے بعد کوئی تکلیف نہیں آئے گی)
پھر جب آپ کی وفات ہو گئی تو فاطمہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں:" يَا أَبَتَاهُ ، أَجَابَ رَبًّا دَعَاهُ ، يَا أَبَتَاهْ ؛ مَنْ جَنَّةُ الْفِرْدَوْسِ مَأْوَاهْ ، يَا أَبَتَاهْ إِلَى جِبْرِيلَ نَنْعَاهْ !!"
جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تدفین ہو گئی تو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: "انس! تمہارا دل کس طرح راضی ہوا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر مٹی ڈالو!؟"
ابن ماجہ (1630) میں کچھ یوں الفاظ ہیں:" وَا أَبَتَاهُ ، إِلَى جِبْرَائِيلَ أَنْعَاهُ ، وَا أَبَتَاهُ مِنْ رَبِّهِ مَا أَدْنَاهُ ، وَا أَبَتَاهُ جَنَّةُ الْفِرْدَوْسِ مَأْوَاهُ ، وَا أَبَتَاهُ أَجَابَ رَبًّا دَعَاهُ" تو یہ سب ندبہ کے زمرے میں آتا ہے اس میں استغاثہ اور دعا کا کوئی پہلو نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: " يَا أَبَتَاهُ " ایسے ہی ہے کہ جس طرح کہا جائے: " يَا أَبِي" تو پہلے لفظ میں تا حرف یا کا متبادل ہے اور الف ندبہ کے لیے اور آخر میں "ہ" وقف کے لیے ہے" ختم شد از " فتح الباری " (8/ 149)
جیسے کہ ہم پہلے اشارہ کر آئے ہیں کہ یہ شعار ثابت ہی نہیں ہے۔
تو اس کی تفصیل کے متعلق شیخ صالح آل شیخ حفظہ اللہ اس بات کی تردید کہ"حافظ ابن کثیر نے ذکر کیا ہے کہ جنگ یمامہ کے موقع پر مسلمانوں کا شعار "محمداہ" تھا" میں کہتے ہیں:
"میں یہ کہتا ہوں کہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے یہ بات جنگ یمامہ سے متعلق ایک لمبی حدیث روایت کی ہے، جس میں کچھ قصہ گوئی بھی شامل ہو گئی ہے، اور اس شعار والی روایت کو ابن جریر نے تاریخ الامم والملوک (3/293)میں روایت کیا ہے، ابن جریر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "میری طرف سری نے خط لکھا جس میں وہ شعیب سے ، وہ سیف سے وہ ضحاک بن یربوع سے وہ اپنے والد سے اور وہ بنی سحیم کے ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں۔۔۔" اس کے بعد انہوں نے مکمل واقعہ ذکر کیا اور اس میں اس شعار کا تذکرہ بھی تھا۔
اس کے بارے میں میرا یہ کہنا ہے کہ یہ تاریک سند ہے، تو عقیدہ توحید جیسے مسائل ہی کیا دیگر شرعی احکام بھی تاریخی کتابوں سے اخذ نہیں کئے جا سکتے، ان تاریخی کتابوں میں ذکر کردہ امور کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے بیان کیا جاتا ہے ، ان میں مذکور تفصیلات کی بجائے صرف اجمالی طور پر ان کو مانا جاتا ہے ؛ یہی وجہ ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کہتے ہیں: "تین چیزوں کی بنیاد ہی نہیں ہے، ان تین چیزوں میں انہوں نے مغازی کا ذکر بھی کیا"
اس سند کی تاریکی کے تین اسباب ہیں:
1- سیف بن عمر جو کہ "الفتوح" اور "الردۃ" نامی کتابوں کے مصنف ہیں یہ بہت زیادہ مجہول راویوں سے روایت کرتے ہیں۔
امام ذہبی ان کے بارے میں "ميزان الاعتدال" (2/255) میں لکھتے ہیں:
سیف بن عمر کے متعلق مطین کے واسطے یحییٰ سے روایت ہے [اس پر حکم لگاتے ہوئے کہا کہ] " فَلْس خير منه "[یعنی: ایک کوڑی بھی اس سے اچھی ہے۔]
ابو داود نے کہا کہ: " ليس بشيء" یعنی اس کی کوئی حیثیت نہیں۔
ابو حاتم نے اسے : "متروک" قرار دیا۔
ابن حبان نے کہا کہ: "اتهم بالزندقة" یعنی اس پر زندیق ہونے کا الزام ہے۔
ابن عدی کہتے ہیں کہ: "عامة حديثه منكر "عام طور پر اس کی روایات منکر ہوتی ہیں۔" ختم شد
2- ضحاک بن یربوع
اس کے بارے میں ازدی کہتے ہیں: " حديثه ليس بقائم " یعنی وہ قابل اعتبار نہیں ہے، میں [صالح آل شیخ] کہتا ہوں کہ: یہ ان مجہول راویوں میں سے ہے جن سے صرف سیف ہی روایت کرتا ہے۔
3- یربوع اور بنی سحیم کے آدمی کے بارے میں کچھ علم نہیں، یہ دونوں مجہول ہیں۔
ان تینوں میں سے ہر ایک وجہ اس حدیث کے ضعیف ہونے کے لیے کافی ہے، تو اگر یہ تینوں جمع ہو جائیں تو اس کا کیا حکم ہوگا؟! مزید یہ کہ یہ روایت کرنے والا سیف بن عمر ہے، اور اس کے بارے میں آپ پہلے جان چکے ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں محفوظ رکھے۔
نیز ابن جریر پر یہ یا اس طرح کی دیگر روایات نقل کرنے کی وجہ سے قدغن نہیں لگائی جا سکتی کہ جنہیں ابن جریر نے روایت کیا اور پھر مؤرخین انہیں تسلسل کے ساتھ بیان کرتے چلے آئے؛ کیونکہ ابن جریر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب تاریخ الامم و الملوک (1/8) کے مقدمے میں لکھا ہے کہ:
"ہماری اس کتاب میں سابقہ لوگوں کے بارے میں کوئی ایسی بات ہو جو قارئین کرام پر ناگوار گزرے یا سامعین اس لئے اسے اچھا نہ سمجھیں کہ وہ کسی اعتبار سے بھی ثابت نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کا معنی اور مفہوم صحیح بنتا ہے تو اس بارے میں یہ جان لیں کہ : یہ خرابی ہماری طرف سے نہیں ہے؛ بلکہ یہ خرابی ان لوگوں کی طرف سے ہے جن کے واسطے سے ہم تک وہ خبر پہنچی ہے، ہم نے تو اسے بعینہٖ پہنچا دیا ہے " ختم شد
"هذه مفاهيمنا" از شیخ صالح آل شیخ صفحہ: (52)
چہارم:
اللہ تعالی کا یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کے بارے میں فرمان ہے: (قَالُوا يَاأَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ (97) قَالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ)
ترجمہ: انہوں نے کہا: اے ہمارے ابا! ہمارے گناہوں کی ہمارے لیے بخشش مانگیں، بیشک ہم ہی خطا کار تھے [97] یعقوب نے کہا: میں عنقریب تمہارے لیے اپنے پروردگار سے بخشش مانگوں گا؛ بیشک وہ بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔[يوسف:97، 98]
تو اس آیت میں زندہ شخص سے دعا کروائی گئی ہے جو کہ بالاتفاق جائز ہے اس پر سب کا اجماع ہے۔
اس لیے ان کا کہنا کہ: " اسْتَغْفِرْ" اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے لیے اللہ تعالی سے مغفرت طلب کریں، انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ہماری مغفرت کر دیں۔ کچھ لوگوں کو یہی وہم ہوتا ہے جیسے کہ آپ کو بھی ہوا ہے۔
جبکہ دوسروں سے دعا کروانے کا جواز کئی دلائل سے ملتا ہے انہی دلائل میں اویس قرنی والی لمبی حدیث بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ: (۔۔۔ اگر تم اویس سے مغفرت کی دعا کروا سکو تو کروا لینا) تو پھر عمر رضی اللہ عنہ اویس کے پاس آئے تو ان سے کہا: "میرے لیے بخشش طلب کریں" مسلم: (2542)
اس حدیث کی شرح میں امام نووی رحمہ اللہ نے باب قائم کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
"باب ہے: نیک لوگوں سے دعا کروانے کے استحباب کے بارے میں، چاہے دعا کروانے والا شخص اس آدمی سے افضل ہو جس سے دعا کروائی جا رہی ہے،اور افضل اوقات میں دعا سے متعلق: واضح رہے کہ اس مسئلے میں احادیث شمار سے بھی زیادہ ہیں، اور اس کے جائز ہونے میں سب کا اجماع ہے" ختم شد
" الأذكار " (ص/643)
تو سابقہ ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ:
اگر کوئی شخص یا محمد (صلی اللہ علیہ و سلم ) کہتا ہے تو یہ بنیادی طور پر جائز ہے، بشرطیکہ یہ جملہ کہنے کے ساتھ کوئی اور ایسی چیز شامل نہ ہو جس میں صراحت یا غیر صراحت کے ساتھ استغاثہ یا حاجت روائی اور مشکل کشائی کا عنصر پایا جائے تو ایسی صورت میں یہ شرک اکبر ہو جائے گا۔
لیکن اس کے باوجود آپ کو نصیحت یہی ہے کہ یہ لفظ کہنے سے احتراز کریں ، یا اس کا بہت زیادہ استعمال مت کریں، اس کی دو وجوہات ہیں:
1- ممکن ہے کہ آپ کے بارے میں لوگ بد گمانی میں ملوث ہو جائیں اور یہ سمجھیں کہ آپ غیر اللہ سے دعا کرتے ہیں۔
2- ممکن ہے کہ آپ کو یہ جملہ کہنے کی عادت پڑ جائے اور جس وقت ضرورت ہو تو بے اختیار آپ یہی جملہ کہہ دیں اور شرک میں ملوث ہو جائیں، اس لیے آپ اپنے آپ کو "یا اللہ"، اسی طرح "یا حیی، یا قیوم" یا پھر "یا ذالجلال والا کرام! " کہنے کی عادت ڈالیں؛ کیونکہ اس سے بڑھ کر شرف کی کوئی بات ہی نہیں ہے کہ انسان اللہ تعالی سے حاجت روائی اور مشکل کشائی کا مطالبہ کرے، اسی کے سامنے گڑگڑائے اور ہر حالت میں صرف اسی سے مانگے۔
پنجم:
جو شخص شرک میں ملوث ہو جائے اور پھر اللہ تعالی سے توبہ کر لے تو اللہ تعالی اس کی توبہ قبول فرماتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: (وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهاً آخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَاماً [68] يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَاناً[69] إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلاً صَالِحاً فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُوراً رَحِيماً)
ترجمہ: اور اللہ کے ساتھ کسی اور الٰہ کو نہیں پکارتے نہ ہی اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق قتل کرتے ہیں اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو شخص ایسے کام کرے گا ان کی سزا پا کے رہے گا [68] قیامت کے دن اس کا عذاب دگنا کردیا جائے گا اور ذلیل ہو کر اس میں ہمیشہ کے لئے پڑا رہے گا[69] ہاں جو شخص توبہ کر لے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے تو ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے ۔ [الفرقان:68 - 70]
واللہ اعلم.