اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

كيا خون كا عطيہ دينے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے ؟

02-08-2008

سوال 2570

كيا مسلمان كے ليے خون كا عطيہ كرنا حلال ہے ؟
اور اگر كوئى شخص خون كا عطيہ دے تو كيا خون دينے كے فورا بعد نماز ادا كرنى ممكن ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر ايسى ضرورت پيش آ جائے كہ خون كا عطيہ كرنا پڑے نہ تو مريض اور نہ ہى ڈاكٹروں اور خون كا عطيہ كرنے والے پر كوئى حرج اور گناہ نہيں كيونكہ فرمان بارى تعالى ہے:

اور جس نے اسے زندگى بخشى گويا اس نے سارى انسانيت كو زندہ كيا .

يہ آيت اس پر دلالت كرتى ہے كہ حرام نفس كى زندگى كا سبب بننے ميں فضيلت ہے، اور اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ ڈاكٹر حضرات اور خون كا عطيہ دينے والے لوگ اس مريض كى زندگى بچانے كا سبب بنتے ہيں جو موت و حيات كى كشمكش ميں ہے، اگر اسے خون نہ ملے تو اسے موت آ سكتى ہے.

2 - اس ليے بھى كہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

نہيں سوائے اس بات كہ تم پر مردار اور خون اور خنزير كا گوشت اور جو غير اللہ كے ليے ذبح كيا گيا ہو حرام كيا گيا ہے، اور جوشخص مجبور ہو جائے اور وہ حد سے تجاوز كرنے والا نہ ہو اور نہ ہى زيادتى كرنے والا تو اس پر كوئى گناہ نہيں، يقينا اللہ تعالى بخشنے والا رحم كرنے والا ہے .

اس آيت ميں حرام چيز استعمال كرنے والے مضطر اور مجبور شخص سے گناہ كى نفى كى گئى ہے، اور مريض جو خون لگنے كا محتاج ہو وہ بھى مضطر اور مجبور ہے اور كسى دوسرے شخص كے ليے اسے خون دينے ميں كوئى حرج نہيں.

3 - شريعت اسلاميہ كے قواعد بھى خون كا عطيہ كرنے كے جواز كے متقاضى ہيں، كيونكہ قاعدہ يہ ہے: ضروريات محظور اور ممنوع اشياء كو مباح كر ديتى ہيں، اور ضرر و نقصان زائل كيا جائيگا، اور مشقت آسانى و سہولت كو كھينچ لاتى ہے، اور مريض شخص مضطر و مجبور، اور اسے ضرر و نقصان ہونے كا انديشہ ہے، اور ہلاكت كے كنارے پہنچ جانے كى بنا پر اسے مشقت پہنچ چكى ہے، تو اس كے ليے خون كا عطيہ كرنا اور اسے خون لگانا جائز ہوا.

خون كا عطيہ كرنے كى مزيد تفصيل آپ سوال نمبر ( 2320 ) كے جواب ميں ديكھ سكتے ہيں.

رہا خون نكلنے سے وضوء ٹوٹنے كا مسئلہ تو اس ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، بعض اہل علم نے ابو درداء رضى اللہ عنہ كى درج ذيل حديث سے استدلال كرتے ہوئے كہا ہے كہ خون نكلنے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قئ كى اور وضوء كيا "

اور انہوں نے اس پر قياس كرتے ہوئے كہا ہے كہ يہ نجس ہے اور بدن سے خارج ہوا ہے.

اس حديث كو امام احمد نے مسند احمد ( 4 / 449 ) اور ابو داود نے سنن ابو داود حديث نمبر ( 2981 ) اور امام ترمذى ميں سنن ترمذى حديث نمبر ( 87 ) ميں روايت كيا ہے.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام اور تابعين عظام اور كئى ايك اہل كى رائے يہ ہے كہ قئ اور نكسير سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے، سفيان ثورى، ابن مبارك، احمد، اسحاق رحمہم اللہ كا قول يہى ہے، اور بعض اہل علم كا كہنا ہے كہ: قئ اور نكسير ميں وضوء نہيں، امام مالك، اور امام شافعى كا قول يہى ہے. انتہى، اور امام احمد سے بھى ايك روايت ہے.

امام بغوى رحمہ اللہ كہتے ہيں: اكثر صحابہ اور تابعين كا يہى قول ہے.

راجح يہ ہے كہ خون نكلنے سے وضوء نہيں ٹوٹتا، ليكن وضوء كرنا مستحب ضرور ہے، اس كى دليل يہ ہے كہ:

ـ برات اصلى: اصل ميں طہارت و پاكيزگى اور وضوء قائم ہے جب تك كہ اس كے خلاف ثابت نہ ہو جائے، اور وضوء ٹوٹنے كى كوئى دليل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں ہوتى، اسى ليےامام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں: كبھى بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يہ ثابت نہيں كہ آپ نے اس سے وضوء كرنا واجب كيا ہو.

شيخ ابن سعدى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

صحيح يہى ہے كہ خون اور قئ وغيرہ سے وضوء نہيں ٹوٹتا چاہے قليل ہو يا كثير، كيونكہ اس سے وضوء ٹوٹنے كى كوئى دليل نہيں ملتى، اور اصل ميں وضوء باقى ہے.

2 - خون كو كسى اور چيز پر قياس كرنے كى صلاحيت نہيں كيونكہ حكم كى علت ايك جيسى نہيں.

3 - خون نكلنے سے وضوء ٹوٹنے كا قول سلف رحمہم اللہ سے ثابت شدہ آثار كے مخالف ہے، ذيل ميں اثر پيش كيا جاتا ہے:

عمر رضى اللہ عنہ كا زخم سے خون جارى ہونے كى حالت ميں ہى نماز ادا كرنا. حسن بصرى رحمہ اللہ كہتے ہيں: اب تك مسلمان اپنے زخموں كى موجودگى ميں ہى نماز ادا كرتے رہے ہيں.

4 - نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا قئ كے بعد وضوء كرنا وجوب پر دلالت نہيں كرتا، كيونكہ قاعدہ يہ ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا صرف فعل جو امر اور حكم كے ساتھ ملا ہوا نہ ہو وجوب پر دلالت نہيں كرتا، اور اس فعل ميں زيادہ سے زيادہ دليل يہ پائى جاتى ہے كہ اس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع كرتے ہوئے اس پر عمل كيا جا سكتا ہے، اسى ليے شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

سنگى لگوانے اور قئ وغيرہ كے بعد وضوء كرنا مستحب ہے، يہى ظاہر وجہ ہے.

مندرجہ بالا بحث كا خلاصہ يہ ہوا كہ:

خون كا عطيہ كرنا جائز ہے، اور خون كا عطيہ دينے والے شخص كے ليے خون دينے كے بعد وضوء كرنا مستحب ہے، اور اگر وہ وضوء نہ بھى كرے تو اس پر كوئى حرج اور گناہ نہيں. واللہ تعالى اعلم.

اس مسئلہ كى مزيد تفصيل معلوم كرنے كے ليے آپ درج ذيل كتب كا مطالعہ كريں.

المختارات الجليۃ للشيخ عبد الرحمن بن سعدى صفحہ نمبر ( 327 ) احكام الاطعمۃ فى الشريعۃ تاليف ڈاكٹر عبد اللہ الطريفى صفحہ نمبر ( 411 ) مجلۃ المجمع الفقھى عدد نمبر ( 1 ) صفحہ نمبر ( 32 ) نقل الدم و احكامہ للصافى صفحہ نمبر ( 27 ) احكام الجراحۃ الطبيۃ تاليف ڈاكٹر الشنقيطى صفحہ نمبر ( 580 ).

اور وضوء ٹوٹنے كے مسئلہ كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ درج ذيل كتب كا مطالعہ كريں.

مجموع الفتاوى ( 20 / 526 ) شرح عمدۃ الفقہ تاليف ابن تيميۃ ( 1 / 295 ) المغنى ابن قدامۃ ( 1 / 234 ) توضيح الاحكام للبسام ( 1 / 239 ) الشرح الممتع ابن عثيمين ( 1 / 221 ).

واللہ اعلم .

نواقض وضو
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔