"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
میں نے لوگوں کی امامت کروائی اور تکبیر تحریمہ کے بارے میں مجھے شک ہوا کہ تلفظ صحیح نہیں تھا، تو میں نے آہستہ آواز سے ہی دوبارہ تکبیر کہہ دی، دوبارہ کہی ہوئی تکبیر تحریمہ کا مقتدیوں کو علم نہیں ہوا، اور ہم سب نے اسی طرح نماز با جماعت مکمل کی ، تو کیا مقتدیوں کی نماز باطل ہو گئی؟ اور کیا میری ذمہ داری بنتی ہے کہ میں سب کو اکٹھا کر کے انہیں حقیقت حال سے آگاہ کروں؟ میں ان سب کو اکٹھا نہیں کر سکتا؛ کیونکہ میں ان سب لوگوں کو نہیں جانتا۔
الحمد للہ.
اول:
تکبیرِ تحریمہ نماز کے ارکان میں سے ایک رکن ہے، جو کہ بھول جانے یا لا علمی کی وجہ سے ساقط بھی نہیں ہوتا، چنانچہ اگر کسی کو اپنی نماز میں تکبیرِ تحریمہ کے بارے میں شک ہو، یا سرے سے بھول گیا ہو تو پھر وہ شخص سرے سے نماز دوبارہ شروع کرے، جیسے کہ ہم نے یہ بات سوال نمبر: (69853) کے جواب میں تفصیل سے بیان کی ہے۔
لیکن اگر شک محض تلفظ کی صحیح ادائیگی سے متعلق ہو اور شک کی بنیاد بھی دل میں آنے والے وسوسے ہوں تو پھر ایسے وسوسے کی طرف توجہ بھی نہیں دینی چاہیے۔
دوم:
اگر کوئی شخص دوبارہ تکبیرِ تحریمہ کہے تو پھر اس کی پہلی نماز کالعدم ہو گئی، اور اس طرح سے مقتدیوں کی تکبیرِ تحریمہ امام سے پہلے ہو گئی؛ کیونکہ امام نے پہلی نماز کالعدم شمار کر کے دوسری نئے سرے سے شروع کی ہے۔ مقتدیوں کا اتنا معمولی آگے بڑھ جانا قابل معافی ہے، جیسے کہ کچھ اہل علم نے اس حوالے سے متنبہ کیا ہے۔
بجیرمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"امام کی ساری تکبیرِ تحریمہ سے مقتدی کی تکبیرِ تحریمہ مؤخر ہو۔ چنانچہ اگر معمولی سے حصے میں دونوں کی تکبیر تحریمہ اکٹھی ہو گئیں تو یہ اقتدا نہیں ہو گی اور نہ ہی نماز شروع ہو گی۔ اس کی صرف دو استثنائی صورتیں ہیں کہ ان میں امام کی تکبیرِ تحریمہ سے پہلے مقتدی تکبیرِ تحریمہ کہہ دے تو جائز ہے:
پہلی صورت: مقتدی نے پہلے اکیلے نماز پڑھنے کے لیے تکبیرِ تحریمہ کہی اور پھر خود کو بعد میں کھڑی ہونے والی جماعت میں شامل کر لیا۔
دوسری صورت: اگر امام تکبیرِ تحریمہ کہے اور مقتدی بھی اس کے پیچھے تکبیرِ تحریمہ کہہ دیں، لیکن امام کو اپنی نیت پر شک ہو تو نیت کے ساتھ تکبیرِ تحریمہ اس طرح سے کہے کہ صرف اپنے آپ کو تکبیر سنائی دے اور امامت جاری رکھے۔" ختم شد
"حاشية البجيرمي على الخطيب" (2/14)
اسی طرح علامہ جمل رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"زرکشی رحمہ اللہ کہتے ہیں: امام حناطی سے ایک ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جس نے لوگوں کی جماعت کرواتے ہوئے تکبیرِ تحریمہ کہی، پھر بالکل آہستہ آواز میں اپنی تکبیرِ تحریمہ دوبارہ کہی، اور مقتدیوں کو اس کے تکبیر تحریمہ دوبارہ کہنے کا احساس ہی نہیں ہوا حالانکہ وہ پہلے ہی تکبیرِ تحریمہ کہہ چکے تھے۔
تو انہوں نے کہا: صحیح ترین موقف کے مطابق مقتدیوں کی نماز صحیح ہے۔" ختم شد
"حاشية الجمل على شرح المنهج" (1/567)
جبکہ احناف کا موقف اس حوالے سے وسیع ہے، وہ کہتے ہیں کہ وہ ابھی بھی نماز میں ہی ہے کیونکہ دوسری تکبیر نماز کو ختم کرنے کے لیے نہیں ہے، نہ ہی پہلی تکبیر تحریمہ کے حکم میں ہے۔
چنانچہ محمد بن حسن شیبانی ؒ کی کتاب الاصل میں ہے کہ: "آپ بتلائیں کہ ایک شخص نماز شروع کرے اور قراءت کر لے، پھر اسے شک ہو کہ اس نے تکبیرِ تحریمہ کہی ہے یا نہیں؟ تو پھر یہ شخص تکبیرِ تحریمہ اور قراءت کا اعادہ کر لیتا ہے، پھر اسے یاد آ جاتا ہے کہ اس نے تکبیر تحریمہ کہی تھی، تو وہ کیا کرے؟
انہوں نے کہا: اپنی نماز جاری رکھے، اور سجدہ سہو کرے۔۔۔
میں نے کہا: اس کی یہ تکبیرِ تحریمہ نماز ختم کرنے کے لیے نہیں تھی؟
انہوں نے کہا: نہیں؛ کیونکہ وہ تو اسی نماز کی نیت کر رہا ہے، کسی اور نماز کی نیت تو نہیں کر رہا۔" ختم شد
"الأصل" (1/226)
سوال میں مذکور استثنائی صورتوں میں مقتدی کی امام سے قبل تکبیرِ تحریمہ کہنے کے بارے میں سیدنا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال کیا جا سکتا ہے کہ: (ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ( قبا میں) بنی عمرو بن عوف میں صلح کرانے کے لیے گئے، پس نماز کا وقت آ گیا۔ تو مؤذن نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے آ کر کہا کہ کیا آپ نماز پڑھائیں گے۔ میں تکبیر کہوں؟ ابوبکر رضی اللہ نے فرمایا کہ ہاں چنانچہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نماز شروع کر دی۔ اتنے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لے آئے تو لوگ نماز میں تھے۔ آپ صفوں سے گزر کر پہلی صف میں پہنچے۔ لوگوں نے ایک ہاتھ کو دوسرے پر مارا ( تا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد پر آگاہ ہو جائیں ) لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز میں کسی طرف توجہ نہیں دیتے تھے۔ جب لوگوں نے متواتر ہاتھ پر ہاتھ مارنا شروع کیا تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ متوجہ ہوئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا۔ آپ نے اشارہ سے انہیں اپنی جگہ رہنے کے لیے کہا۔ ( کہ نماز پڑھائے جاؤ ) لیکن انہوں نے اپنے ہاتھ اٹھا کر اللہ کا شکر کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو امامت کا اعزاز بخشا، پھر بھی وہ پیچھے ہٹ گئے اور صف میں شامل ہو گئے۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی ۔۔۔) اس حدیث کو امام بخاری: (684) اور مسلم : (421) نے روایت کیا ہے۔
خلاصہ کلام:
مقتدیوں کی نماز صحیح ہے، اور آپ پر یا مقتدیوں پر کچھ بھی لازم نہیں ہے۔
تاہم آپ پر یہ لازم ہے کہ دل میں آنے والے وسوسوں پر توجہ نہ دیں؛ کیونکہ ممکن ہے کہ یہ وسوسے انسان کی نماز کو بالکل تباہ کر دیں۔
واللہ اعلم