"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
اذان فجر سے کچھ منٹ قبل میرے خاوند نے میرے ساتھ ہم بستری شروع کر دی تھی، وہ سمجھ رہے تھے کہ ابھی وقت پڑا ہے، انہوں نے بالکل خیال نہیں کیا کہ وقت دیکھ لے، حالانکہ میں نے بہت کہا تھا کہ وقت دیکھ لیں، بہ ہر حال جماع کے دوران فجر کی اذان ہو گئی، پھر میں نے مزید ہم بستری سے انکار کیا اور بار بار اصرار کرتی رہی تو اس نے مجھے تو چھوڑ دیا لیکن اکیلے ہی فارغ ہو گئے، جیسے انسان مشت زنی سے فارغ ہو جاتا ہے، ان کا گمان تھا کہ جب انسان جماع شروع کر لے تو اسے پورا کرنا جائز ہوتا ہے، تو اس صورت میں میرے لیے اور میرے خاوند کے لیے کیا حکم ہے؟
الحمد للہ.
اول:
فجر صادق کے طلوع ہوتے ہی کھانے پینے اور جماع سمیت تمام روزے کے منافی امور سے رک جانا ضروری ہے، اور یہ پابندی سورج غروب ہونے تک باقی رہتی ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ
ترجمہ:اور کھاؤ پیو یہاں تک کہ تمہارے لیے فجر کا سفید دھاگا سیاہ دھاگے سے واضح ہو جائے۔ [البقرة: 187]
لہذا جس شخص کو طلوع فجر صادق کا یقین ہو جائے تو اس پر ان تمام چیزوں سے رک جانا لازمی ہے، اور اگر اس کے منہ میں بھی کوئی لقمہ ہو تو اس پر وہ لقمہ باہر اگل دینا لازم ہے۔
چنانچہ اگر اس حالت میں طلوع فجر ہو جائے کہ وہ اپنی بیوی سے ہم بستری کر رہا ہو تو پھر فوری طور پر وہ بیوی سے جدا ہو گیا تو اس کا روزہ صحیح ہو گا، اس پر کچھ بھی لازم نہ ہو گا۔
جب اسے یہ علم ہو گیا کہ فجر صادق طلوع ہو چکی ہے تو اس کے لیے جماع کرتے رہنا جائز ہی نہیں ہے، اور اگر وہ جماع کرتا ہی رہتا ہے تو پھر اس میں کوئی دوسری رائے ہے ہی نہیں کہ اس کا روزہ فاسد ہو گیا اور اس پر کفارہ بھی لازم ہو گا۔
اور اگر اس کام میں بیوی بھی راضی تھی یا اس کی بات مان رہی تھی تب بیوی پر بھی وہی کچھ لازم ہو گا جو خاوند پر ہے، کہ روزے کی قضا بھی دے اور کفارہ بھی دے، لیکن اگر بیوی تو مسلسل انکار کرتی رہی اور خاوند نے اس سے زبردستی کی تو بیوی کا روزہ صحیح ہے بیوی پر کچھ نہیں ہے۔
اس بارے میں مزید جاننے کے لیے آپ سوال نمبر: (124290) اور (106532) کا مطالعہ کریں۔
دوم:
طلوع فجر کی کچھ علامات ہیں جن سے طلوع فجر صادق کو پہچانا جا سکتا ہے، نیز مؤذن حضرات کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ صحیح وقت کی پابندی کریں۔
مؤذنین میں سے اکثریت گھڑیوں اور رمضان کیلنڈر پر اعتماد کرتے ہیں، فجر صادق کو نہیں دیکھتے، نہ ہی بڑے شہروں میں انہیں فجر صادق نظر آ سکتی ہے؛ کیونکہ بڑے شہروں میں بہت زیادہ لائٹیوں کی وجہ سے روشنی زیادہ ہوتی ہے اور طلوع فجر نظر نہیں آتی۔
چنانچہ عین طلوع فجر کے وقت گھڑی اور کیلنڈر پر اعتماد کرتے ہوئے اذان دینا یقینی نہیں ہوتا؛ کیونکہ ان تمام تر کیلنڈروں میں وقت سے پہلے اذان ہو جاتی ہے اور اس کی وجہ فلکی حساب میں موجود مشہور اختلاف ہے، چنانچہ متعدد اہل علم کے ہاں معروف ہے کہ کیلنڈر کے مطابق اذان دیں تو یہ وقت سے قبل اذان ہوتی ہے، تاہم کتنا وقت پہلے اذان ہوتی ہے؟ یہ ہر جگہ کے اعتبار سے الگ الگ ہے۔۔۔
اس بنا پر جس شخص نے اذان کے وقت بھی کھا لیا یا ہم بستری کر لی اور وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ ابھی رات باقی ہے تو اس کا روزہ صحیح ہے؛ کیونکہ اسے ابھی طلوع فجر کا یقینی علم نہیں ہوا۔ خصوصاً ایسی صورت میں کہ جب کھانے کا معاملہ اذان کے فوری متصل بعد ہو۔
تاہم اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اپنا بھلا سوچنے والا شخص عبادات کے معاملے میں احتیاط سے کام لیتا ہے، وہ مشکوک کام نہیں کرتا، اور نہ ہی مشکوک جگہوں کے قریب جاتا ہے، کیونکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس حکم پر عمل پیرا ہوتا ہے کہ: (جس چیز میں تمہیں شک ہو اسے چھوڑ کر ایسی چیز کو اپنا لو جس میں شک نہیں ہے۔) اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان بھی اس کے سامنے ہوتا ہے کہ: (جو شخص شبہات سے بچ جائے تو وہ اپنے دین اور عزت کو محفوظ بنا لیتا ہے۔)
تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ: جیسے ہی اذان سنے تو فوری طور پر کھانے پینے، جماع اور دیگر تمام روزے کے منافی امور سے دور ہو جائے، چاہے اسے یہ گمان ہو کہ رمضان کیلنڈر میں غلطی ہے۔ نیز فرض روزے کے متعلق تو بہت زیادہ احتیاط برتنی چاہیے؛ کیونکہ صحیح انداز سے عبادت کرنا اور پھر عبادت کو ضائع ہونے سے بچانا بہت ضروری بات ہے۔
رمضان کیلنڈروں یا دائمی اوقات نماز کے بارے میں اختلاف ایک مشہور معروف مسئلہ ہے، نیز پیچیدہ اور مشکل بھی ہے؛ تو ایسی صورت میں کسی مسلمان کو کیا ضرورت ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایسے پیچیدہ مسائل میں ڈالے! عقل مند شخص تو اپنے روزے کے لیے احتیاط کرتا ہے، اور اذان ہوتے ہی کھانے پینے سے رک جاتا ہے، اسی طرح نماز کی ادائیگی کے لیے بھی احتیاط سے کام لیتا ہے اور طلوع فجر صادق کے بعد ہی فجر کی نماز ادا کرتا ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (66202) کا جواب ملاحظہ کریں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ:
- اگر آپ کے علاقے میں مؤذن حضرات فجر صادق کو آنکھوں سے دیکھ کر اذان دیتے ہیں، گھڑی اور کیلنڈر پر اعتماد نہیں کرتے تو اذان سنتے ہی جماع سے رک جانا ضروری ہے، اگر کوئی شخص فوری نہیں رکتا تو پھر اس کا روزہ فاسد ہو گیا ہے، اور اس پر قضا بھی ہے اور کفارہ بھی، چاہے اسے انزال ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔
اور اگر جماع سے تو رک جائے لیکن اندام نہانی میں جماع کی بجائے کسی اور جگہ مباشرت جاری رکھے اور اسے انزال ہو جائے تو اس کا روزہ فاسد ہو گیا، اور اس پر قضا بھی لازم ہے؛ کیونکہ اس نے اپنا روزہ انزال کر کے فاسد کر لیا ہے، تاہم اس پر کفارہ واجب نہیں ہے؛ کیونکہ کفارہ صرف جماع کی صورت میں واجب ہوتا ہے، اور اس نے جماع اذان ہوتے ہی ترک کر دیا تھا۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (71213) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔
اور اگر اپ کے علاقے کے مؤذن حضرات گھڑیوں اور کیلنڈروں پر ہی اعتماد کرتے ہیں ، اور خاوند اپنی بیوی سے اذان کے بعد اتنی معمولی مدت تک جماع کرتا رہتا ہے کہ اس میں طلوع فجر صادق یقینی نہیں ہوتا؛ تو ان شاء اللہ اس کا روزہ صحیح ہے، تاہم بہتر یہی ہے کہ اپنے روزوں کے لیے محتاط عمل اپنائے۔
واللہ اعلم