"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
الحمد للہ والصلاۃ والسلام على رسول اللہ محمد وآلہ و صحبہ وبعد:
سب تعريفات اللہ مالك الملك كے ليے ہيں، اور اللہ تعالى كے رسول محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر درود و سلام كے بعد:
كينيا ميں نيروبى كے قاضى عزيز بھائى شيخ على دارانى حفظہ اللہ تعالى
السلام عليكم ورحمۃ اللہ و بركاتہ:
وبعد:
اى ميل كے ذريعہ آپ كے ملك ميں محتاج اور ضرورتمند طالب علموں پر سودى مال صرف كرنے كے جواز كے متعلق آپ كا ارسال كردہ سوال ملا، اس كے جواب ميں جو كچھ اہل علم نے ذكر كيا ہے اس كا خلاصہ پيش خدمت ہے:
جس كسى كے پاس بھى حرام مال ہو اسے اس مال سے چھٹكارا اس طرح حاصل كرنا چاہيے كہ نہ تو وہ خود اس سے كوئى نفع حاصل كرے اور نہ ہى اپنى كسى مصلحت كے حصول ميں صرف كرے، مثلا كھانا پينا، يا رہائش اور اہل وعيال كا خرچہ، يا تعليمى اخراجات، اور نہ ہى اسے اپنے آپ سے نقصان اور مضرت كے خاتمہ يا اپنے اوپر ہونے والے ظلم كے خاتمہ پر صرف كرے، مثلا: جبرا عائد كردہ انشورنس، يا ہر قسم كا ٹيكس اور تاوان، اور اس مال كو نكالتے وقت اس سے چھٹكارے كى نيت ہونى چاہيے نہ كہ صدقہ و خيرات كى كيونكہ اللہ تعالى پاك ہے اور پاكيزہ چيز ہى قبول فرماتا ہے.
اور جس ميں سودى مال صرف كيا جا سكتا ہے، وہ ہر قسم كى خير وبھلائى كے كام ہيں، مثلا فقراء و مساكين كو دينا، اور محتاج اور ضرورتمندوں كے علاج معالجہ كے اخراجات، اور اسى طرح مجاھدين اور تنگ دست مقروض لوگوں كى چٹى پر، اور اسلامى مراكز كے كاموں ميں، اور عام فائدہ كى مرمت وغيرہ پر مثلا بيت الخلاء، اور مساجد، اور راستے، اور اس طرح كى دوسرى اشياء.
اس مال كو ضرورتمند اور محتاج طالب علموں كے تعليمى اخراجات پر صرف كرنا بھى اسى ميں شامل ہوتا ہے جس كا بيان سابقہ سطور ميں گزر چكا ہے، اگرچہ يہ تعليمى ادارے كفار كے تابع ہى كيوں نہ ہوں اور ان ميں تعليم مباح اشياء كى ہو.
اور حرام مال كمائى كرنے والے شخص كے ليے تو حرام ہے، ليكن جسے يہ مال بطور عطيہ ديا جائے تو اس كے ليے اس مال سے استفادہ كرنا جائز ہے، اور يہ اسے ضائع شدہ مال شمار كيا جائے گا جس كا كوئى مالك نہ ہو.
اللہ تعالى ہميں اور آپ كو خير و بھلائى كے كام كرنے اور دين كى مدد و نصرت اور مسلمانوں كى معاونت كرنے كى توفيق عطا فرمائے.
والسلام عليكم ورحمۃ اللہ و بركاتہ .