"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
بات چیت کے ذریعے منی خارج کرنے کا حکم بار بار بد نظری کرنے والا ہو گا یا اس کا حکم خیالات کے ذریعے منی خارج کرنے کا ہو گا؟
الحمد للہ.
اول:
کسی کو مسلسل دیکھنے سے منی خارج ہو جائے تو مالکی اور حنبلی فقہائے کرام کے ہاں روزہ فاسد ہو جائے گا، اور ایسے شخص کو گناہ بھی ملے گا۔
لیکن اگر کسی کو محض تصورات میں لانے سے منی خارج ہو جائے تو جمہور کے ہاں روزہ فاسد نہیں ہو گا، جبکہ مالکی فقہائے کرام کے ہاں فاسد ہو جائے گا۔
جیسے کہ: "شرح منتهى الإرادات" (1/ 481) میں ہے کہ:
"کسی کو بار بار دیکھا اور صرف مذی ہی نہیں بلکہ منی خارج ہو گئی تو اس کا روزہ فاسد ہو گیا؛ کیونکہ اس نے ایک ایسے عمل سے منی خارج کی ہے جس سے اس نے لذت بھی پائی ہے، اور وہ اس سے بچ بھی سکتا تھا، تو اس کا حکم ایسے ہی ہو گا کہ مشت زنی سے اس نے منی خارج کی ۔" ختم شد
اسی طرح "كشاف القناع"(2/ 321) میں ہے کہ:
"یا کوئی شخص تصورات میں منی خارج کر دے یا اس کی مذی خارج ہو جائے تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (میری امت کے لیے تصورات میں آنے والی چیزوں کو اس وقت تک معاف کر دیا گیا ہے جب تک وہ اس کے مطابق عمل نہیں کرتے یا بولتے نہیں۔) نیز اس مسئلے میں یہ بھی ہے کہ خیالات کی وجہ سے منی خارج کرنے پر نہ تو کوئی صریح نص ہے اور نہ ہی اجماع ہے۔
تاہم اس مسئلے کو بار بار دیکھنے پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ تصورات میں لانے سے اتنی لذت نہیں ملتی جتنی دیکھنے میں ملتی ہے، اور تصورات میں لا کر انزال تک پہنچنا کسی چیز کو بار بار دیکھنے سے کم تر بھی ہوتا ہے۔ جیسے کہ کسی کی منی غیر اختیاری تصورات کی وجہ سے خارج ہو جائے ؛ کیونکہ وہ خود تصورات میں کسی کو لانے کا سبب نہیں بنا۔" ختم شد
اسی طرح " الموسوعة الفقهية " ( 26 / 267 ) میں ہے کہ:
"فقہائے احناف اور شافعی اس بات کے قائل ہیں کہ : کسی کو دیکھ کر یا تصور میں لا کر منی خارج ہو جائے یا مذی نکل جائے تو اس سے روزہ باطل نہیں ہوتا۔
شافعی فقہائے کرام کے ہاں صحیح ترین موقف کے مقابلے میں یہ بھی رائے ہے کہ: جب کوئی شخص بد نظری کی وجہ سے منی خارج کرنے کا عادی ہو جائے، یا بار بار کسی کو دیکھے اور پھر اسے انزال ہو جائے تو اس کا روزہ فاسد ہو جائے گا۔
جبکہ مالکی اور حنفی فقہائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ مسلسل کسی چیز کو دیکھتے رہنے سے منی خارج ہو جائے تو اس سے روزہ فاسد ہو جائے گا؛ کیونکہ اس نے ایک ایسے عمل کی وجہ سے منی خارج کی ہے جس سے وہ لذت پا رہا تھا، اور وہ اس سے بچ بھی سکتا تھا۔
لیکن محض خیالات کی بنا پر منی خارج ہو جائے تو پھر مالکی فقہائے کرام کے ہاں اس کا روزہ فاسد ہو جائے گا جبکہ حنبلی فقہائے کرام کے ہاں فاسد نہیں ہو گا؛ کیونکہ خیالات سے بچنا ممکن نہیں ہوتا۔" ختم شد
دوم:
اور اگر گفتگو ویڈیو کی صورت میں ہو رہی ہو، تو یہ بار بار دیکھنے کی وجہ سے انزال میں شمار ہو گا۔
اور اگر گفتگو صرف آواز کی صورت میں ہو تو اس کے متعلق بھی ظاہر یہی لگتا ہے کہ یہاں بھی منی خارج ہونے سے روزہ فاسد ہو جائے گا، اور یہاں پر گفتگو کو بھی تکرار نظر پر محمول کیا جائے گا؛ کیونکہ اس سے بچنا ممکن ہے، اور یہاں پر معاملہ محض تصورات اور خیالات والا نہیں ہے، بلکہ یہاں تو گفتگو بھی شامل ہے اور آواز بھی سنائی دے رہی ہے، اور اسی طرح کے دیگر امور بھی ہیں جن سے شہوت برانگیختہ ہوتی ہے، تو یہاں پر آواز بار بار سننا تکرار نظر پر محمول ہو گا۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مسئلہ: ایک شخص اپنی بیوی سے بات کر رہا تھا اور اسے انزال ہو گیا، تو کیا ہم اسے مباشرت کے حکم میں لیں گے اور کہیں گے کہ اس کا روزہ فاسد ہو گیا ہے، یا پھر اسے تکرار نظر سے ملائیں گے؟
ظاہر تو یہی ہے کہ اسے تکرار نظر سے ملائیں گے، اس طرح اس کا حکم مباشرت سے کم تر ہو گا۔
اس بنا پر تکرار گفتگو کو تکرار نظر کے ساتھ ملایا جائے گا؛ کیونکہ ایسا ہو سکتا ہے کہ انسان بات کرتے ہوئے دیکھنے سے زیادہ لذت محسوس کرے۔" ختم شد
"الشرح الممتع" (6/ 378)
روزے دار کو ہر ایسے عمل سے دور رہنا چاہیے جس سے روزہ فاسد ہو سکتا ہو، یا روزے کے فاسد ہونے کے امکانات ہوں، اس میں سوال میں مذکور بات چیت اور اسی طرح کے دیگر امور بھی شامل ہیں۔
چنانچہ سنن ابو داود: (2387) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے روزے دار کے مباشرت کرنے کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے رخصت دے دی، پھر ایک اور شخص آیا تو اس نے بھی یہی بات پوچھی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے اجازت نہیں دی۔
تو جس کو رخصت دی تھی وہ بوڑھا شخص تھا، اور جسے روکا تھا وہ نوجوان لڑکا تھا۔
اس حدیث کو البانیؒ رحمہ اللہ نے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔
چنانچہ یہی حکم روزے کو فاسد کرنے والی تمام دیگر چیزوں کا ہو گا؛ لہذا جس شخص کو ظن غالب ہو کہ بوس و کنار یا مباشرت سے اسے انزال ہو جائے گا تو اس پر یہ چیزیں روزے کے دوران حرام ہوں گی۔
امام ترمذی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"روزے دار کے لیے بوس و کنار کے حکم کے متعلق اہل علم صحابہ کرام اور سلف صالحین کے ہاں مختلف موقف پایا جاتا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعض صحابہ کرام نے بوڑھے شخص کو بوسہ لینے کی اجازت دی ہے جبکہ نوجوان کو اس کی اجازت نہیں دی، اس خدشے سے کہ نوجوان کا روزہ سلامت نہیں رہے گا، تو مباشرت کا حکم تو اس سے زیادہ خطرناک ہے۔
جبکہ بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ بوسہ لینے سے روزے کے ثواب میں کمی واقع ہوتی ہے، تاہم اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا، ان کا کہنا ہے کہ اگر روزے دار کو اپنے بارے میں ضبط کا یقین ہو تو وہ بوسہ لے سکتا ہے، اور جب اسے اپنے آپ پر انزال کا خدشہ ہو تو بوسہ نہ لے، تا کہ اس کا روزہ خراب نہ ہو، یہی موقف سفیان ثوری اور امام شافعی کا ہے۔" ختم شد
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جب یہ بات ثابت ہو گئی تو بوسہ لینے والا اگر بہت زیادہ شہوت والا ہے کہ اسے ظن غالب ہو کہ اگر اس نے بوسہ لیا تو انزال ہو جائے گا، تو اس کے لیے بوسہ لینا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس سے روزہ فاسد ہو جائے گا، تو اس لیے بوسہ لینا بھی حرام ہو گا جیسے کہ روزے کی حالت میں کھانا حرام ہوتا ہے۔
اور اگر شہوت تو اس میں ہو لیکن اسے انزال ہونے کا ظن غالب نہ ہو تو اس کے لیے بوسہ لینا مکروہ ہے؛ کیونکہ بوسے کی وجہ سے روزہ ٹوٹنے کا خدشہ موجود ہے، اور ممکن ہے کہ اس کا روزہ خراب ہی ہو جائے۔" ختم شد
"المغنی" (3/ 127)
شیطان کی بہت کوشش ہوتی ہے کہ انسان کے روزے کو خراب کروا دے، یا اس کے اجر میں کمی ہی پیدا کر دے، جبکہ روزے کی بنیاد ہی دو چیزیں ہیں: اللہ کے لیے کھانے پینے سے اور شہوت سے دور رہنا، جیسے کہ صحیح بخاری: (1894) میں ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (روزہ ڈھال ہے، اس لیے نہ کوئی بیہودہ کام کرے اور نہ ہی جہالت پر مبنی عمل کرے، اور اگر کوئی اس سے لڑے یا گالی گلوچ کرے تو اسے دو بار کہہ دے: میں روزے دار ہوں، میں روزے دار ہوں۔ اور قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالی کے ہاں کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ اچھی ہے۔ روزے دار میری وجہ سے کھانے پینے اور شہوت سے دور رہتا ہے۔ روزہ میرے لیے ہے اور میں اس کا بدلہ دوں گا، اور نیکی کا بدلہ دس گنا زیادہ ملے گا۔)
واللہ اعلم