"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ہم 9 بہن بھائی ہیں، ہم سب کی شادی ہو چکی ہے اور ہر ایک بال بچے دار ہے، ہمارے والد صاحب فوت ہو چکے ہیں، اور ہماری والدہ محترمہ عمر رسیدہ ہیں، ہم نے ان کے خیال رکھنے کے لیے ایک ایک دن بھائیوں میں تقسیم کیا ہوا ہے، ہماری ایک بہن نے والدہ کا خیال رکھنے سے معذرت کر لی ہے اور اس کی دلیل یہ دی ہے کہ ماں کا خیال رکھنا بیٹوں کی ذمہ داری ہے، بیٹیوں کی نہیں، چنانچہ شریعت کے مطابق عورت پر اس کے خاوند اور بچوں کا حق والدین کے حق سے زیادہ ہے، ہماری بہن کو یہ بات اس کے دعوے کے مطابق کسی عالم دین نے کہی ہے، تو کیا جو بات ہماری بہن نے کی ہے وہ صحیح ہے؟ اور کیا یہ یہی دین حنیف کی تعلیمات ہیں؟ واضح رہے کہ ہماری بہن ملازمت کرتی ہے اور دن کا اکثر حصہ گھر سے باہر گزارتی ہے، بسا اوقات کئی کئی دنوں تک گھر سے باہر سفر پر بھی رہتی ہے، اور اس صورت میں اپنے خاوند اور بچوں کی دیکھ بھال سے بھی کوئی عذر پیش نہیں کرتی۔
الحمد للہ.
جب والدین کو خدمت کی ضرورت ہو تو اولاد بیٹے ہوں یا بیٹیاں سب پر یکساں ان کی خدمت واجب ہے، اب اس کے لیے وہ چاہے خود پیش ہوں یا کسی کو ان کی خدمت پر مامور کر دیں۔
جیسے کہ علامہ سفارینی رحمہ اللہ "غذاء الألباب" (1/ 390) میں کہتے ہیں:
"والدین کے حقوق میں یہ بھی شامل ہے کہ والدین کو یا ان دونوں میں سے کسی ایک کو بھی جب کبھی خدمت کی ضرورت ہو تو ان کی خدمت کریں۔" ختم شد
اسی طرح "الموسوعة الفقهية" (19/ 39) میں ہے کہ:
"بچے کا اپنے والد کی خدمت کرنا، یا والد کا اپنے بچے کو اپنے کام میں لگانا بالکل جائز ہے، اس میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے، بلکہ یہ تو شرعی طور پر نیکی ہے اور اس نیکی کو کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے، اس لیے اولاد پر جب بھی ضرورت ہو تو والد کی خود خدمت کرنا یا کسی سے خدمت کروانا واجب ہے، چنانچہ اولاد اس خدمت کے عوض میں کچھ بھی معاوضہ نہیں لے سکتی؛ کیونکہ یہ خدمت اولاد پر واجب ہوتی ہے، لہذا اگر کوئی شخص کسی کے لیے اپنے آپ پر واجب حق کی ادائیگی کرتا ہے تو وہ اس پر اجرت نہیں لے سکتا۔" ختم شد
اس لیے والدہ کی خدمت آپ سب پر واجب ہے، تاہم اگر عورت کو اس کا خاوند والدہ کی خدمت کرنے سے منع کر دے تو خاوند کا حق والدہ کے حق پر مقدم ہو گا، تاہم عورت صاحب حیثیت ہو تو اس کے متبادل کے طور پر کسی خادمہ کو مکمل طور پر اپنی طرف سے متعین کروا سکتی ہے یا گنجائش تھوڑی ہو تو خادمہ کی تنخواہ میں حصہ ڈال سکتی ہے۔ لیکن اگر عورت کو خاوند نہیں روکتا تو بیٹوں کے ساتھ بیٹی پر بھی والدین کی خدمت کرنا واجب ہے۔
کسی بھی با اخلاق اور صاحب مروت خاوند کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ والدہ کی خدمت سے روکے، خصوصاً ایسی صورت میں کہ جب ہفتے میں ایک آدھ دن اس پر خدمت کی باری آتی ہو۔
پھر اگر والدہ کو کسی ایسی عورت کی ضرورت پڑتی ہے جو اس کے نسوانی معاملات میں خدمت کرے تو سب سے پہلے بیٹیوں کا حق بنتا ہے، چہ جائیکہ کوئی اور یہ کام کرے بیٹیوں کو کرنا چاہیے، پھر بیٹیوں پر یہ بات اس وقت مزید مؤکد ہو جاتی ہے جب کوئی عورت اس کام کے لیے معاوضے پر بھی دستیاب نہ ہو، یا والدہ یہ نہ چاہے کہ غیر عورت کی نظر اس کے جسم پر پڑے۔
بہتر یہی ہے کہ آپ اپنی بہن کو سمجھائیں، اور والدہ کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت واضح کریں، نافرمانی کے خطرات سے آگاہ کریں، اور یہ بھی بتلائیں کہ والدہ کی خدمت کے لیے بیٹے سے بڑھ کر حق بیٹی کا بنتا ہے؛ کیونکہ بزرگی اور بڑھاپے کی حالت میں خدمت کے دوران ستر وغیرہ کو بھی دیکھنا پڑتا ہے، اور عورت کا ستر بیٹے کے مقابلے میں بیٹی کے لیے قدرے نرم حکم رکھتا ہے۔
واللہ اعلم