"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
کچھ عرصہ قبل میں نے کسی کام کے نہ کرنے کی قسم اٹھائی تاکہ میں وہ کام چھوڑ دوں، لیکن اب مجھے قسم کی تفصیلات معلوم نہیں ہیں کہ میں نے ایک ماہ تک وہ عمل نہ کرنے کی مقید قسم اٹھائی تھی یا مطلق ؟ اسی طرح کیا قسم کے لیے زبان سے تلفظ اور منہ کا حرکت کرنا ضروری ہے؟ کیونکہ مجھے اب یہ بھی یاد نہیں ہے کہ میں نے زبان سے یہ الفاظ کہے تھے یا نہیں؟
الحمد للہ.
یہ دو طرح کا ہو سکتا ہے، ایک یہ کہ بذات خود قسم کے بارے میں شک ہو کہ اس نے قسم اٹھائی تھی یا نہیں؟ دوسرا شک یہ کہ قسم کی تفصیلات کے بارے میں آپ کو شک ہو۔
پہلی صورت میں شک کا حکم وہی ہے جو قسم کے واقع ہونے یا قسم کے ٹوٹنے کے بارے میں پیدا ہونے والے شک کا ہے: لہذا اس صورت میں شک کرنے والے پر کچھ بھی نہیں ہے؛ کیونکہ اصل حکم یہ ہے کہ انسان کسی بھی ذمہ داری سے بری الذمہ ہوتا ہے، اور یہ یقینی چیز ہے اور یقین شک کی بنیاد پر زائل نہیں ہو سکتا۔
جیسے کہ ابن نجیم رحمہ اللہ بھی کہتے ہیں کہ:
"جو شخص کسی کام کے بارے میں شک کرے کہ کیا اس نے وہ کام کیا تھا یا نہیں؟ تو اصل حکم یہی ہے کہ اس نے وہ کام نہیں کیا۔" ختم شد
"الأشباه والنظائر" (ص: 50)
تو اس لیے قسم محض دلی خیالات سے واقع نہیں ہوتی، لہذا زبان سے تلفظ ضروری ہے۔
جیسے کہ علامہ سرخسیؒ کہتے ہیں:
"محض دل کے خیال سے کچھ بھی واقع نہیں ہوتا۔" ختم شد
"المبسوط" (6 /76)
امام نوویؒ کہتے ہیں:
"زبان سے کہے بغیر محض نیت کرنے سے ہی نذر واقع ہو جائے گی؟ حنبلی فقہائے کرام کے متفقہ فیصلے کے مطابق نذر کے واقع ہونے کے لیے زبان سے الفاظ ادا کرنا ضروری ہے، چنانچہ محض نیت سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔" ختم شد
"المجموع" (8/435)
اسی طرح علامہ مرداوی ؒ"الإنصاف" (11/118) میں کہتے ہیں:
"نذر صرف زبان سے ماننے پر ہی صحیح ہو گی، چنانچہ اگر کوئی شخص صرف نیت کرتا ہے تو بلا اختلاف اس کی نذر صحیح نہیں ہے۔" ختم شد
نیز حدیث کے مطابق نذر کا بھی وہی حکم ہے جو قسم کا ہے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (یقیناً نذر ، قسم ہی ہوتی ہے۔) مسند احمد: (16889)، اس حدیث کو علامہ البانی ؒ نے سلسلہ صحیحہ: (2860) میں صحیح قرار دیا ہے۔
صرف نیت کرنے سے قسم واقع نہیں ہوتی، اس کی دلیل سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً اللہ تعالی نے میری امت سے دل میں آنے والے خیالات کو معاف کر دیا ہے ، جب تک ان خیالات کے مطابق عمل نہ کرے یا گفتگو نہ کرے۔) بخاری: (5269)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جب نیت کے مطابق عمل یا زبان سے گفتگو نہ کی جائے تو وہ اثر نہیں رکھتی۔" ختم شد
"فتح الباری" (9/371)
دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (23/46) میں ہے کہ:
"اگر واقعی ماجرا ایسے ہی ہے جیسے کہ آپ نے ذکر کیا ہے کہ آپ کی بیٹی نے زبان سے قسم اٹھانے یا نذر ماننے کے الفاظ ادا نہیں کیے، بلکہ دل میں سوچا تھا کہ قسم اٹھانی ہے، تو اس پر کچھ بھی نہیں ہے؛ کیونکہ قسم زبان سے اللہ تعالی کا نام لے کر یا اللہ تعالی کی کسی صفت کا نام لے کر اٹھائی جاتی ہے۔" ختم شد
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (224072) کا جواب ملاحظہ کریں۔
تو اس بنا پر جو کچھ آپ نے بتلایا ہے کہ آپ کو قسم کے الفاظ زبان کے ساتھ ادا کرنے پر شک ہے کہ آپ نے زبان سے قسم اٹھائی تھی یا نہیں؟ تو اصل یہی ہے کہ آپ نے قسم نہیں اٹھائی، اسی لیے آپ پر کچھ بھی لازم نہیں آتا۔
واللہ اعلم