"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
کتاب و سنت کی روشنی میں رمضان کے آخری عشرے کے متعلق اور لیلۃ القدر کے بارے میں یہ بات کیسے سمجھیں کہ یہ طاق راتوں میں آتی ہے ؟مثلاً: اگر کوئی شخص الگ الگ چاند نظر آنے والے دو ملکوں کے درمیان دو متواتر طاق راتیں سفر کرے اور راتیں گزارے پھر یہ دونوں راتیں دونوں ملکوں میں آنے والے دن کی علامات کی بنا پر لیلۃ القدر ہوں ، تو کیا ایسا امکان ہے کہ اس شخص کو ایک رمضان میں دو مرتبہ شب قدر نصیب ہوئی ؟ مزید برآں یہ بھی ہے کہ آخری عشرہ میں طاق اور جفت راتوں کی تعیین کیسے ہوتی ہے؟ کیونکہ رمضان المبارک کے آغاز یا اختتام کو دیکھیں تو طاق اور جفت راتیں مختلف ہو ں گی۔
الحمد للہ.
اول:
شب قدر رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہوتی ہے ، یعنی 21، 23، 25، 27، اور 29۔ بالکل ایسے ہی جفت راتوں میں بھی ہو سکتی ہے؛ کیونکہ یہی جفت راتیں مہینے کے 30 دن ہونے کی صورت میں باقی رہ جانے والے ایام کو دیکھیں تو طاق بنتی ہیں، جیسے کہ صحیح بخاری: (2022) میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (شب قدر آخری عشرے کی نو گزر جانے والی یا سات باقی رہ جانے والی راتوں میں ہے۔) مزید خالدؒ ، عکرمہ ؒ سے بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: 24 ویں تاریخ کو لیلۃ القدر تلاش کریں۔
راتوں کو دو طرح سے شمار کیا جا سکتا ہے کہ مہینے کے آغاز سے بھی اور اختتام سے بھی، جیسے کہ صحیح بخاری: (2021) میں سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو، جب 9 راتیں باقی رہ جائیں، جب 7 راتیں باقی رہ جائیں اور جب 5 راتیں باقی رہ جائیں۔)
اسی طرح صحیح مسلم: (1167) میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے شب قدر کی تعیین سے قبل شب قدر کی تلاش میں رمضان کے درمیانی عشرے میں اعتکاف کیا، تو جب درمیانی عشرے کی تمام راتیں گزر گئیں تو آپ نے خیمے ہٹا دینے کا حکم دیا تو اسے ہٹا دیا گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بتلایا گیا کہ لیلۃ القدر آخری عشرے میں ہے ، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دوبارہ خیمہ لگانے کا حکم دیا اور خیمہ لگا دیا گیا، پھر آپ نے لوگوں کے پاس آ کر خطاب کیا اور فرمایا: لوگو! لیلۃ القدر میرے لیے واضح کر دی گئی تھی اور میں تمہیں شب قدر کے متعلق بتلانے کے لیے نکلا تھا، لیکن دو آدمی جھگڑ رہے تھے اور ان کے ساتھ شیطان تھا تو مجھے رات کی تعیین بھلا دی گئی، اب تم اس رات کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو، شب قدر کی تلاش 9، 7، اور 5 ویں رات میں کرو) راوی کہتے ہیں میں نے کہا: ابو سعید آپ کو گننے کا طریقہ ہم سے زیادہ معلوم ہے۔ اس پر ابو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا: "بالکل، اس حوالے سے ہماری ذمہ داری بھی تم سے زیادہ بنتی ہے۔" راوی کہتے ہیں میں نے کہا: یہ نویں، ساتویں اور پانچویں کیا ہے؟ تو ابو سعید رضی اللہ عنہ سے کہا: "جب اکیس راتیں گزر جائیں تو اب جو اس کے بعد آئے گی وہ بائیسویں رات ہے یہی نویں رات ہے، پھر جب تئیس راتیں گزر جائیں اب اس کے بعد جو آئے گی وہ ساتویں رات ہے، پھر جب پچیس راتیں گزر جائیں تو اس کے بعد والی رات پانچویں ہے۔"
اس لیے اگر کوئی یقینی طور پر لیلۃ القدر حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ پورا آخری عشرہ قیام کرے۔
ابن عطیہ رحمہ اللہ اپنی تفسیر: (5/ 505) میں لکھتے ہیں:
"لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں گھومتی ہے، یہی موقف صحیح اور قابل اعتماد ہے، چنانچہ طاق رات کا اعتبار مہینے کے 30 یا 29 دونوں اعتبار سے دیکھنا ہو گا، لہذا شب قدر کے متلاشی کو چاہیے کہ 20 ویں رات سے ہی آخری عشرے کی ہر رات میں مہینے کے آخر تک شب قدر تلاش کرے؛ کیونکہ مہینے کے اختتام کے اعتبار سے دیکھیں تو 30 دن پورے ہونے کی صورت میں طاق بننے والی راتیں اور ہوں گی اور مہینہ 29 ہونے کی صورت میں اور ہوں گی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ : تین راتیں باقی رہ جائیں، پانچ راتیں باقی رہ جائیں، اور سات راتیں باقی رہ جائیں۔ دوسری جگہ فرمایا: آخری عشرے کی تیسری، پانچویں، ساتویں اور نویں رات میں شب قدر تلاش کرو۔
مالک ؒ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نویں رات سے 21 ویں رات مراد لی ہے۔
ابن حبیبؒ کہتے ہیں: مالکؒ کی بات اس وقت ہے جب مہینہ 29 کا ہو۔
تو اس سے واضح ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مہینے کے 29 یا 30 کا ہونے کا خیال رکھا، اس لیے یقینی طور پر لیلۃ القدر اسی کو نصیب ہو گی جو پورا عشرہ عبادت کرے۔" ختم شد
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"شب قدر رمضان کے آخری عشرے میں ہوتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہی بات صحیح ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (شب قدر رمضان کے آخری عشرے میں ہے) لیلۃ القدر آخری عشرے کی طاق راتوں میں آتی ہے لیکن یہ طاق راتیں گزشتہ ایام کے اعتبار سے 21، 23، 25، 27، اور 29 بنتی ہیں جبکہ باقی راتوں کے اعتبار سے طاق راتیں الگ بنیں گے، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے کہ: ([شب قدر تلاش کرو] جب 9 راتیں باقی رہ جائیں، 7 راتیں باقی رہ جائیں، 5 راتیں باقی رہ جائیں اور 3 راتیں باقی رہ جائیں)
اس بنا پر: اگر مہینہ 30 دنوں کا ہو تو مذکورہ حدیث کے مطابق جفت راتوں کو طاق راتیں بنیں گی لہذا بائیسویں رات نویں باقی رہ جانے والی رات ہو گی، چوبیسویں رات ساتویں باقی رہ جانے والی رات ہو گی، یہی وضاحت سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بھی صحیح حدیث میں کی ہے، اور اسی کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قیام فرمایا، اور اگر مہینہ 29 دنوں کا ہو تو پھر مہینے کے آغاز اور اختتام دونوں اعتبار سے طاق راتیں ایک ہی ہوں گی۔
تو اگر معاملہ ایسا ہے تو پھر اہل ایمان کو شب قدر پورے آخری عشرے میں تلاش کرنی چاہیے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان بھی ہے کہ: (اس رات کو آخری عشرے میں تلاش کرو۔) ختم شد
"مجموع الفتاوى"(25/ 284)
دوم:
اگر دو ملکوں میں مہینے کا آغاز الگ الگ ہو تو ایک ملک کی جفت رات دوسرے ملک کی طاق رات ہو گی، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دو راتیں الگ الگ ہیں کہ ایک جگہ رات پا کر پھر دوسرے ملک میں جا کر دوسری رات پا لے! بلکہ رات ایک ہی ہو گی۔
مثلاً: کسی جگہ ماہ رمضان کی 27 ویں رات شب قدر تھی ، تو دونوں ملکوں میں 27 کا دن مثلاً: منگل یا بدھ کا دن ہو گا؛ کیونکہ دونوں ملکوں میں مہینے کا آغاز الگ الگ ہوا تھا، اس صورت میں لیلۃ القدر کی رات ایک ہی ہو گی چنانچہ اگر کسی ملک میں منگل کی رات لیلۃ القدر ہے تو بدھ کی رات لیلۃ القدر نہیں ہو سکتی، اسی طرح اگر بدھ کی رات لیلۃ القدر ہے تو منگل کی رات لیلۃ القدر نہیں ہو سکتی۔
چنانچہ اگر منگل کی رات کسی ملک میں 27 ویں رات بنتی ہے تو وہ کسی اور ملک میں 26 ویں کی رات ہے، اس بات سے یہ چیز سمجھ میں آتی ہے کہ جفت راتوں کو بھی بھر پور عبادت کی جائے؛ کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ رؤیت ہلال میں خلل کی وجہ سے جفت رات بھی در حقیقت طاق رات ہو۔
مذکورہ وضاحت کے بعد صرف یہ صورت باقی رہ جاتی ہے کہ ایک ہی رات کو انسان دو مرتبہ پا لے، مثلاً: منگل کے روز لیلۃ القدر تھی تو کسی نے پوری رات یا اس کا کچھ حصہ عبادت کی اور پھر مغرب کی سمت سفر شروع کر دیا تو ایک بار پھر اسی رات کو پا لے گا؛ کیونکہ رات کا آغاز مشرق کی سمت میں پہلے ہوتا ہے۔
واللہ اعلم