"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اگر والد نے یہ قرضہ اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے کیلئے لیا تھا تو بیٹا اس قرضہ کی ادائیگی زکاۃ سے نہیں کر سکتا، کیونکہ بیٹے پر والد کی ضروریات پوری کرنا واجب ہے۔
اور اگر والد نے یہ قرضہ ضروریات زندگی سے ہٹ کر کسی اور چیز کیلئے لیا تھا تو اس صورت میں بیٹا اپنے والد کا قرضہ زکاۃ سے ادا کر سکتا ہے، کیونکہ بیٹے پر والد کا قرضہ چکانا ضروری نہیں ہے، اور نہ ہی اس طرح سے بیٹا اپنے ذمہ واجب نفقہ ساقط کر رہا ہے۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"زکاۃ کے مستحق رشتہ داروں میں زکاۃ دینا غیروں کو زکاۃ دینے سے افضل ہے، کیونکہ
رشتہ دار کو زکاۃ دینا زکاۃ کی ادائیگی کیساتھ ساتھ صلہ رحمی بھی ہے، لیکن اگر یہ
رشتہ ان لوگوں پر مشتمل ہیں جن کا خرچہ آپ کے ذمہ ہے تو ایسی صورت میں انہیں زکاۃ
نہیں دی جا سکتی، ایسا کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ اس طرح سے آپ اپنے مال کو بچائیں
گے۔
اور اگر مذکورہ بہن بھائی غریب تو ہیں
لیکن آپ کے پاس اتنی گنجائش نہیں ہے کہ آپ ان کے اخراجات برداشت کریں تو آپ انہیں
اپنی زکاۃ دے سکتے ہیں، اسی طرح اگر آپ کے بہن بھائیوں پر لوگوں کے قرضے ہوں تو آپ
یہ قرضے اپنی زکاۃ سے ادا کر سکتے ہیں، کیونکہ اس صورت میں انہیں زکاۃ دینے میں
کوئی حرج نہیں ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ رشتہ داروں کے قرضے ادا کرنا رشتہ داروں کی
ذمہ داری نہیں ہے، چنانچہ ان قرضوں کو زکاۃ سے ادا کرنا زکاۃ کی ادائیگی کیلئے کافی
ہوگا، بلکہ اگر آپ کا بیٹا یا والد بھی مقروض ہو اور اس کے پاس قرضہ چکانے کی
استطاعت نہ ہو تو آپ اس کا قرضہ اپنی زکاۃ سے ادا کر سکتے ہیں، دوسرے لفظوں میں یوں
سمجھیں کہ آپ اپنے والد کا قرضہ اپنی زکاۃ میں سے ادا کر سکتے ہیں، اسی طرح اپنے
بیٹے کا قرضہ اپنی زکاۃ سے ادا کر سکتے ہیں، بشرطیکہ بیٹے یا والد کے ذمہ قرضہ آپ
کے ذمہ ان کے خرچہ میں کمی کوتاہی کی وجہ سے نہ ہو، چنانچہ اگر انہوں نے یہ قرضہ آپ
کے ذمہ ان کے خرچہ میں کمی کوتاہی کی وجہ سے لیا ہو تو پھر آپ ان کا یہ قرضہ اپنی
زکاۃ سے ادا نہیں کر سکتے؛ تا کہ کہیں آپ اس طریقہ کار کو حیلہ کے طور پر استعمال
نہ کریں، کہ آپ انہیں خرچہ نہ دیں، اور وہ اس وجہ سے قرضہ اٹھانے پر مجبور ہو جائیں
پھر آپ ان کے اس قرضہ کو اپنی زکاۃ میں سے ادا کر دیں" انتہی
"مجموع فتاوى ابن باز" (14/310)
اور شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جن کا خرچہ کسی کے ذمہ ہو تو وہ خرچہ کی مد میں انہیں زکاۃ نہیں دے سکتا، تاہم ان
کے قرضہ کی ادائیگی زکاۃ کی مد سے کر سکتا ہے، چنانچہ اگر فرض کریں کہ والد پر قرضہ
ہے لیکن والد مالی طور پر قرضہ چکانے کی کیفیت میں نہیں ہے، اور بیٹا ان کے قرضے کو
اپنی زکاۃ سے ادا کرنا چاہتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ، اسی طرح بیٹا ، ماں کا
اور والد بیٹے کا قرضہ ادا کر سکتا ہے، لیکن اگر آپ انہیں زکاۃ ان کے خرچہ کی مد
میں دیں گے تو یہ جائز نہیں ہوگا، کیونکہ اس طرح سے آپ اپنا مال خرچ کرنے سے بچائیں
گے۔
والدین ، بیٹے بیٹیاں، اور ایسے تمام لوگوں کا خرچہ آپ کے ذمہ ہے جن
کی وفات پر آپ ان کے وارث بنیں گے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَعَلَى
الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِكَ
وارث پر بھی اسی طرح واجب ہے۔[البقرة : 233] یہاں اللہ تعالی نے وارث پر بھی رضاعت
کی اجرت واجب کی ہے، کیونکہ شیر خوار بچے کیلئے دودھ ہی نان و نفقہ ہے" انتہی
"فتاوى ابن عثیمین" (18/416)
واللہ اعلم.