"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
كيا جلى ہوئى ميت كو غسل ديا جائےگا يا نہيں، اور اسكے غسل كى كيفيت كيا ہوگى؟ يہ علم ميں ركھيں كہ بعض اوقات ميت بالكل جل جاتى ہے ؟
الحمد للہ.
جل كر مرنے والے كى ميت كو اگر غسل دينا ممكن ہو، اور اگر غسل دينےاس كے بكھرنے يا ٹوٹنے كا خدشہ ہو، تو اس پر پانى بہايا جائے گا، اور اگر پانى بہانے سے بھى اس كے ٹوٹنے كا خدشہ ہو تو اگر ممكن ہو تو اسے تيمم كروايا جائے.
ابن قدامۃ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
( اور چيچك زدہ شخص، يا جل كر اور ڈوب كر مرنے والے شخص كو اگر غسل دينا ممكن ہو تو اسے غسل ديا جائے گا، اور اگراسے غسل دينے سے اس كے ٹوٹنے كا خدشہ ہو تو اسے بغير چھوئے اس پر پانى بہايا جائےگا، اور اگر خدشہ ہو كہ پانى سے بھى ٹوٹ جائے گى تو اسے غسل نہيں ديا جائےگا بلكہ اگر ممكن ہو تو اسے تيمم كروايا جائےگا، مثلا اس زندہ شخص كى طرح جسے پانى اذيت ديتا ہو، اور اگر ميت كو پانى نہ ہونے كى بنا پر غسل دينا مشكل ہوتواسے تيمم كروايا جائےگا، اور اگر اس كےكچھ حصے كو غسل دينا مشكل ہو تو جس قدر غسل دينا ممكن ہو غسل ديا جائےگا، اور باقى كو تيمم كروايا جائےگا، زندہ شخص كى طرح ) انتھى
ديكھيں: المغنى لابن قدامۃ ( 2 / 209 ).
اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
حادثہ ميں ہلاك ہونے والے شخص كو غسل كس طرح ديا جائےگا جس كى حالت اورجسم خراب ہو چكا ہو، اور ہوسكتا ہے اس كے بعض اعضاء كٹ چكے ہوں؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
جتنا بھى ممكن ہو اسے غسل دينا واجب ہے، جس طرح كسى دوسرے كو غسل ديا جاتا ہے، اور اگر ممكن نہ ہو تو اسے تيمم كروايا جائے، كيونكہ عاجز ہونے كى صورت ميں تيمم پانى كے ساتھ غسل دينے كا قائم مقام ہے.
ديكھيں: مجموع فتاوى و مقالات متنوعۃ ( 13 / 123 ).
اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں حادثہ ميں جسم كٹ جانے والى ميت كے متعلق بيان كيا گيا ہےكہ:
( جب اسے غسل دينا ممكن نہ ہو تو مندرجہ ذيل فرمان بارى تعالى كے عموم كى بنا پر اسے تيمم كروايا جائےگا:
فرمان بارى تعالى ہے:
تم حسب استطاعت اللہ تعالى كا تقوى اختياركرو.
كيونكہ اللہ تعالى نے پانى نہ ہونے يا پھر پانى استعمال كرنے سے عاجز ہونے يا پھر اس كے استعمال سے ضرر اور نقصان كى صورت ميں حدث اكبر اور اصغر دونوں سے پاكيزگى حاصل كرنے كے ليے تيمم مشروع كيا ہے ).
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 8 / 371 ).
واللہ اعلم .