"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
میں ایک کاروباری کمپنی میں کام کرتا ہوں، انہوں نے اپنے مال کی زکاۃ ادا کرنی ہے، میری اس وقت حالت یہ ہے کہ مکان کا کرایہ سر پر ہے، اور گھر میں ٹھنڈی ہوا کا بندوبست نہیں ہے، مجھے کچھ برقی آلات بھی چاہییں، اپنی کمپنی سے میں قرضہ بھی لے چکا ہوں جو کہ ابھی تک میں نے ادا نہیں کیا، تو کیا میرے لیے کمپنی کی زکاۃ مالک کے علم میں لا کر وصول کرنا جائز ہے؟ تا کہ میں قرض اتار سکوں اور گھر کے کرائے کے ساتھ دیگر ضروریات کو پورا کر سکوں؟
الحمد للہ.
اگر آپ مقروض ہیں اور آپ کے پاس قرض اتارنے کے لیے کچھ نہیں ہے، اور ایسی بھی کوئی اضافی چیز نہیں ہے جو آپ فروخت کر کے اپنا قرض اتار سکیں مثلاً: زمین یا کوئی مکان وغیرہ تو آپ کے لیے قرض اتارنے کے لیے زکاۃ وصول کرنا جائز ہے؛ کیونکہ آپ مقروض ہیں اور فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاِبْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنْ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ترجمہ: یقیناً زکاۃ فقرا، مساکین، زکاۃ جمع کرنے والے عاملین، تالیف قلبی، غلام آزاد کروانے، مقروض لوگوں ، فی سبیل اللہ، اور مسافروں کے لیے ہے، یہ اللہ تعالی کی طرف سے فرض ہے، اور اللہ تعالی جاننے والا اور حکمت والا ہے۔[التوبہ: 60]
اسی طرح "الموسوعة الفقهية" (23/321) میں مقروض شخص کو زکاۃ دینے کی شرائط ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
"مقروض شخص اپنے ذاتی مال سے قرض ادا نہ کر سکتا ہو چاہے ذاتی مال پر زکاۃ لاگو ہوتی ہو یا نہ ہوتی ہو، اور وہ ذاتی مال اس کی ضرورت سے زائد بھی ہو، چنانچہ فرض کریں اگر وہ کسی ایسے مکان میں رہتا ہے جو 100 کا ہے، اور 100 ہی اس پر قرض ہے، اور یہ شخص 50 والے گھر میں رہ سکتا ہے، تو اسے زکاۃ اس وقت تک نہیں دی جائے گی جب تک مکان فروخت کر کے اضافی 50 قرض کی مد میں نہ دے دے، اس کی مالکی فقہائے کرام نے صراحت کی ہے، اور اگر اس کے پاس قرض کا کچھ حصہ ادا کرنے کا بندوبست ہو تو اسے صرف باقی ماندہ رقم ہی زکاۃ کی مد سے دی جائے گی۔ اور اگر کچھ عرصے تک کما کر اپنا قرض چکا سکتا ہے تو اس صورت میں اِسے شافعی فقہائے کرام کے ہاں زکات دینے کے جواز میں دو مختلف اقوال ہیں۔" ختم شد
دوم:
اگر برقی آلات بنیادی ضروریات سے تعلق رکھتے ہیں مثلاً: فریج، اور واشنگ مشین وغیرہ اور آپ کے پاس ان آلات کو خریدنے کی طاقت نہیں ہے تو پھر آپ کے لیے فقر کی وجہ سے ان کی قیمت زکاۃ میں سے لینا جائز ہے، اسی طرح مکان کا کرایہ بھی لے سکتے ہیں بشرطیکہ آپ کے پاس کرایہ ادا کرنے کے لیے رقم نہ ہو۔
جبکہ اے سی وغیرہ کے بارے میں یہ ہے کہ اگر آپ کسی ایسے علاقے میں رہتے ہیں جہاں بہت زیادہ گرمی پڑتی ہے، اور وہاں عام طور پر لوگ اے سی کے بغیر نہیں رہتے، مثلاً: آپ خلیجی ممالک میں ہوں تو آپ کے لیے زکاۃ کی رقم وصول کرنا جائز ہے۔ لیکن اگر آپ شدید گرمی والے علاقوں میں نہیں رہتے تو پھر اے سی بنیادی ضروریات میں سے نہیں ہے، اس لیے اے سی زکاۃ کی رقم سے لینا جائز نہیں ہو گا، اس میں آپ دوسرے لوگوں کو دیکھیں کہ اگر اکثریت اے سی استعمال کرنے کی سکت نہیں رکھتی تو پھر زکاۃ کے مال سے اے سی نہ لینا زیادہ اولی ہو گا۔
سوم:
اگر آپ کے لیے زکاۃ وصول کرنا جائز ہو تو پھر آپ کے لیے اپنی کمپنی سے زکاۃ وصول کرنا بھی جائز ہے جہاں آپ ملازمت کر رہے ہیں، لیکن جیسے کہ آپ نے ذکر بھی کیا کہ مالک کی اجازت سے ہو۔
واللہ اعلم