"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
مندرجہ بالا سابقہ سوال كا جواب كميٹى كے علماء كرام نے كچھ اس طرح ديا:
اس طرح كا لين دين حرام معاملات ميں شامل ہوتا ہے، يہ اس ليے كہ اس معاملہ اور لين دين كا مقصد كميشن كا حصول ہے نہ كہ پروڈكٹ كرنا تو يہ كميشن دسيوں ہزار تك پہنچ جاتى ہے، حالانكہ اس پروڈكٹ اور چيز كى قيمت كچھ سو سے بھى زيادہ تجاوز نہيں كرتى، اور ہر عقل ركھنے والے اور دانشمند شخص كے سامنے جب يہ دونوں معاملے پيش كيے جائنگے تو وہ كميشن كو ہى اختيار كريگا، اسى ليے ان كمپنيوں كا اپنى پروڈكٹ اور تيار كردہ اشياء كى ماركيٹنگ اور مشہورى ميں اعتماد ہى كميشن كا حجم زيادہ پيش كرنا ہے جو شراكت دار كو حاصل ہوگى، اور اسے تھوڑى سى رقم جو تيار كردہ چيز اور پروڈكٹ كى قيمت ہے كے مقابلہ ميں بہت زيادہ نفع دكھا كر اسے دھوكہ ميں ڈالنا ہے.
اس ليے يہ كمپنياں جو چيز تيار كرتى ہيں وہ تو اس كميشن اور نفع كے حصول كے ليے پردہ اور آڑ ہيں جس كى ماركيٹنگ كى جاتى ہے، اور جب اس معاملہ اور لين دين كى حقيقت يہ ہے تو پھر يہ شرعا كئى ايك امور كى بنا پر حرام ہوا:
اول:
يہ چيز دو قسم كا سود اپنے ضمن ميں ليے ہوئے ہے، ايك تو ربا الفضل يعنى زيادہ سود، اور دوسرا ربا النسيئۃ يعنى ادھار سود، تو اس طرح شراكت كرنے والا تھوڑى سى رقم اس ليے ادا كرتا ہے كہ اس سے اسے بہت بڑى رقم حاصل ہوگى، جو كہ زيادہ اور تاخير كے ساتھ نقدى كے بدلے نقدى ہے، اور يہى وہ سود ہے جو بالنص اور بالاجماع حرام ہے.
اور وہ چيز جو كمپنى نے كھاتہ دار كو فروخت كى ہے وہ تو تبادل كے ليے صرف آڑ كى حيثيت ركھتى ہے، اور مشترك كا بھى وہ چيز لينا مقصد نہيں ہے تو اس ليے حكم ميں بھى اس كا كوئى اثر نہيں ہوگا.
دوم:
يہ دھوكہ اور فراڈ ميں شامل ہوتا ہے جو كہ شرعا حرام ہے، اس ليے كہ مشترك كو اس كا كوئى علم نہيں كہ آيا وہ مطلوبہ تعداد ميں مشترك افراد حاصل كر سكے گا يا نہيں ؟
اور سركلى يا نيٹ ماركيٹنگ جتنى بھى جارى رہے اس كے ليے ايك انتہاء اور حد كا ہونا ضرورى ہے جس پر جا كر وہ موقوف ہو جائيگى، اور مشترك شخص جب اس سركل كے ساتھ ضم ہوتا ہے تو اسے علم نہيں ہوتا كہ آيا وہ اونچے طبقہ ميں ہو كر منافع حاصل كر لے گا، يا پھر وہ نچلے طبقوں ميں ہى رہےگا اور اسے نقصان اور خسارہ اٹھانے پڑيگا ؟
اور واقعہ ايسا ہى ہے كہ اس سركل ميں شامل ہونے والے اكثر افراد خسارہ ميں ہى رہتے ہيں، اور بہت ہى كم تعداد اوپر والے طبقہ ميں پہنچ پاتا ہے، اس ليے غالب طور اس ميں خسارہ ہى ہے، اور دھوكہ اور فراڈ كى حقيقت يہى ہے، اور وہ دو معاملوں ميں تردد اور شك ہے ان ميں زيادہ غالب وہى ہوتا ہے جس كا خدشہ اور خوف زيادہ ہو، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دھوكہ اور فراڈ كرنے سے منع فرمايا ہے، جيسا كہ صحيح مسلم كى روايت ميں بيان ہوا ہے.
سوم:
يہ معاملہ اس پر مشتمل ہے كہ يہ كمپنياں لوگوں كا مال ناحق اور باطل طريقہ سے اس طرح كھاتى ہيں كہ اس عقد سے صرف كمپنى مستفيد ہوتى ہے يا وہ شخص مستفيد ہوتا ہے جسے كمپنى دوسروں كو دھوكہ دينے كے مقصد كے ليے ديتى ہے، اور يہى چيز ہے جو بالنص اللہ تعالى نے اپنے اس فرمان ميں حرام كى ہے:
اے ايمان والو تم آپس ميں ايك دوسرے كا مال باطل طريقہ سے مت كھاؤ النساء ( 29 ).
چہارم:
اس معاملہ ميں پروڈكٹ كے معاملہ ميں جو دھوكہ اور فراڈ اور لوگوں سے عيب چھپانا اور انہيں شبہ ميں ڈالنا ہى مقصود ہے، اور حالت اس كے خلاف ہے، اور انہيں بہت زيادہ كميشن كے دھوكہ ميں ركھنا جو غالب طور حاصل بھى نہيں ہوتى، جو كہ شرعى طور پر حرام دھوكہ اور فراڈ ميں شامل ہوتى ہے.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے بھى دھوكہ ديا اور فراڈ كيا وہ ہم ميں سے نہيں "
اسے امام مسلم رحمہ اللہ نے صحيح مسلم ميں روايت كيا ہے.
اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ بھى فرمايا ہے:
" جب تك خريدار اور بائع ايك دوسرے سے جدا نہ ہو جائيں انہيں اختيار حاصل ہے، اگر تو وہ دونوں سچائى اختيار كريں اور واضح طور پر بيان كر ديں تو ان دونوں كى تجارت اور بيع ميں بركت كر دى جاتى ہے، اور اگر وہ جھوٹ بوليں اور عيب چھپائيں تو ان كى بيع و تجارت كى بركت ختم كر دى جاتى ہے "
صحيح بخارى اور صحيح مسلم.
اور يہ كہنا كہ: يہ لين دين دلالى ہے، تو يہ قول صحيح نہيں، كيونكہ دلالى تو ايسا عقد اور معاہدہ ہے جس كى بنا پر دلال سامان فروخت كرنے كى ملاقات كى اجرت حاصل كرتا ہے، ليكن يہ سركلى اور نيٹ ماركيٹنگ تو يہ ہے كہ مشترك شخص خود اس پروڈكٹ كى ماركيٹنگ كى اجرت ديتا ہے، اور جيسا كہ دلالى كا مقصد تو حقيقتا سامان فروخت كرنے كى ماركيٹنگ كرنا ہوتا ہے، ليكن اس كے برخلاف نيٹ اور سركل ماركيٹنگ ميں حقيقى مقصد تو كميشن كى ماركيٹنگ ہے نہ كہ پروڈكٹ اور تيار كردہ اشياء كى، اور اس ليے كہ مشترك شخص تو اس كے ليے ماركيٹنگ كرتا ہے جو آگے اس كى ماركيٹنگ كرے اور وہ آگے، اسى طرح يہ دلالى كے خلاف ہے جس ميں دلال تو اس كے ليے ماركيٹنگ كرتا ہے جو حقيقتا سامان خريدنا چاہتا ہے، تو ان دونوں ميں فرق صاف ظاہر ہے.
اور يہ قول كہ كميشن تو ہبہ كے قبيل سے ہى ہے، يہ قول بھى صحيح نہيں، اور اگر تسليم بھى كر ليا جائے تو پھر ہر ہبہ شرعا جائز بھى نہيں چنانچہ قرض پر كوئى چيز ہبہ كرنى سود شمار ہوتا ہے، اور اسى ليے عبد اللہ بن سلام رضى اللہ تعالى عنہ نے ابو بردہ رضى اللہ تعالى عنہ كو فرمايا تھا:
" آپ ايسى جگہ رہتے ہيں جہاں سود بہت ہى زيادہ فاش اور عام ہے اس ليے اگر آپ كا كسى شخص پر حق ہو اور وہ تجھے بھوسہ، يا جو، يا اونٹ كا چارہ بھى ہديہ كرے تو يہ سود ہے "
اسے امام بخارى رحمہ اللہ نے صحيح بخارى ميں روايت كيا ہے.
اور ہبہ تو اس سبب كا حكم ليتا ہے جس كے باعث وہ چيز ہبہ كى گئى ہو، اسى ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس عامل كے متعلق فرمايا تھا جس نے آكر يہ كہا تھا كہ:
يہ تمہارا ہے اور يہ مجھے ہديہ ديا گيا ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم اپنى ماں باپ كے گھر كيوں نہ بيٹھ كر انتظار كيوں نہ كرتے رہے كہ تمہيں ہديہ ديا جاتا ہے يا نہيں ؟ "
اسے امام بخارى اور امام مسلم رحمہما اللہ نے روايت كيا ہے.
اور يہ كميشن تو ملى ہى اس سركل اور نيٹ ماركيٹنگ كى بنا پر ہے تو آپ اسے جتنى بھى نام دے ليں چاہے وہ ہديہ، يا ہبہ يا كوئى اور نام ہو تو يہ اس كى حقيقت اور اس كے حكم كو كچھ بھى بدل نہيں سكتى.
اور ايك چيز كا بيان كرنا ضرورى ہے وہ يہ كہ: ماركيٹ ميں كچھ كمپنياں ايسى بھى ظاہر ہو چكى ہيں جو اپنے لين دين ميں سركل يا نيٹ ماركيٹنگ كے طريقہ پر چلتى ہيں، مثلا سمارٹس وائى، اور گولڈ كوئيسٹ اور سيون ڈائمنڈ، ان كا حكم بھى دوسرے كمپينوں كے حكم سے مختلف نہيں جن بيان ہو چكا ہے، اگرچہ تيار كردہ اشياء كو پيش كرنے ميں يہ ايك دوسرے سے مختلف ہيں.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.