"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ميرى بيوى كے پاس زيور ہے جس پر زكاۃ واجب ہے، ميرى بيوى ملازمت نہيں كرتى اور نہ ہى اس كا كوئى اور ذريعہ آمدن ہے، اس كى طرف سے مجھ پر ادائيگى واجب ہے، ليكن ميں مقروض ہوں، تو كيا بيوى مجھے اپنے مال كى زكاۃ دے سكتى ہے تا كہ ميں اپنا قرض ادا كرسكوں ؟
الحمد للہ.
اول:
بيوى كے مال كى زكاۃ كى ادائيگى خاوند كے ذمہ واجب نہيں، كيونكہ زكاۃ مالك پر واجب ہوتى ہے، اور زكاۃ اس نفقہ ميں شامل نہيں ہوتى جو بيوى كا اپنے خاوند كے ذمہ واجب ہے۔
دوم:
اور رہا مسئلہ بيوى كا اپنے مال كى زكاۃ خاوند كو دينا تو اس ميں اكثر اہل علم جواز كے قائل ہيں، اور انہوں نے مندرجہ ذيل بخارى اور مسلم كى حديث سے استدلال كيا ہے:
ابو سعيد خدری رضى اللہ عنہ بيان كرتے ہيں كہ جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عورتوں كو صدقہ كرنے كا حكم ديا تو عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ عنہ كى بيوى زينب رضى اللہ تعالى عنہا آئىں اور كہنے لگى:
اے اللہ تعالى نبى !آپ نے آج صدقہ و خيرات كرنے كا حكم ديا ہے، اور ميرے پاس ميرا زيور ہے ميں اسے صدقہ كرنا چاہتى ہوں، تو ابن مسعود [رضى اللہ عنہ] كا خيال ہے كہ وہ اور اس كى اولاد اس صدقہ كى زيادہ مستحق ہیں ، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: " ابن مسعود رضى اللہ عنہ نے سچ كہا ہے، تيرا خاوند اور تيرى اولاد كسى دوسرے پر صدقہ كرنے سے زيادہ حقدار ہیں"
صحيح بخارى ( 1462 ) صحيح مسلم ( 1000 )
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اس حديث سے استدلال كيا گيا ہے كہ بيوى اپنى زكاۃ خاوند كو دے سکتی ہے، یہ موقف امام شافعى، ثورى، امام ابو حنيفہ كے صاحبين، كا قول ہے اور امام مالك اور امام احمد كى ايك روايت يہى ہے۔
اور اس كى تائيد اس قاعدہ سے بھی ہوتى ہے كہ ضرورت کے وقت تفصيل بیان نہ کرنا عموم كے قائم مقام ہوتا ہے، لہذا جب صدقہ كا ذكر كيا گيا اور اس كى تفصيل بيان نہيں ہوئى كہ وہ فرضى ہے يا نفلى تو گويا يہ كہا كہ: "فرضى ہو يا نفلى آپ سے ادا ہو جائے گا"
اور بعض علماء كرام نے اس سے منع كيا ہے كہ بيوى اپنے مال كى زكاۃ خاوند كو دے، ان كا كہنا ہے كہ: كيونكہ خاوند اس زكاۃ کو اپنی اسی بیوی پر خرچ كرے گا، تو گويا كہ اس نے زكاۃ اپنے آپ كو ہى دى، اور انہوں نے مندرجہ بالا حديث كو نفلى صدقہ پر محمول كيا ہے۔
چنانچہ ابن منير رحمہ اللہ نے اس كا جواب ديتے ہوئے كہا ہے:
"صدقہ دوبارہ بیوی کی طرف لوٹ آئے اسکا احتمال تو نفلى صدقہ ميں بھى پايا جاتا ہے" تصرف کے ساتھ
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ " الشرح الممتع " (6/168-169)ميں كہتے ہيں:
صحيح يہى ہے كہ اگر خاوند زكاۃ كے مستحقين ميں سے ہے تو اسے زكاۃ دينى جائز ہے، اور اس كے ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ كے اس قول سے استدلال كيا جاسكتا ہے جو انہوں نے عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ كى بيوى زينب رضى اللہ عنہا كو فرمايا تھا: " تيرا خاوند اور تيرى اولاد قابل صدقہ افراد میں تمہارئے صدقہ کے زيادہ حقدار ہيں "
تو ہمارے ليے يہ كہنا ممكن ہے: اس میں فرض اور نفل دونوں شامل ہیں، بہر حال اگر حديث ميں دليل ہے تو يہ بہتر اورخير ہے، اور اگر يہ كہا جائے كہ يہ تو نفلى صدقہ كے ساتھ خاصل ہے، تو ہم خاوند كو زكاۃ دينے كے بارہ ميں يہ كہيں گے: خاوند فقير اور محتاج ہے اور اس ميں وہ وصف پايا جاتا ہے جس كى بنا پر زكاۃ كا مستحق ہوا جاتا ہے، تو منع اور نہ دينے كى دليل كہاں ہے؟ كيونكہ جب سبب پايا جائے تو حكم ثابت ہو جاتا ہے، ليكن اگراگر كوئى دليل اس كے خلاف ملے تو پهر ثابت نہيں ہوگا، چنانچہ يہاں اس كے خلاف قرآن اور سنت سے كوئى دليل نہیں ملتى ہے كہ بيوى اپنے خاوند كو زكاۃ ادا نہيں كر سكتى۔ انتہی مختصرا
دائمی فتوى كميٹى (10/62)سے پوچھا گيا:
اگر خاوند فقير اور محتاج ہو تو كيا بيوى اپنے مال كى زكاۃ اسے دے سکتی ہے؟
كميٹى كا جواب تھا:
اگر خاوند فقير ہو تو اس كے فقر كو دور كرنے كے ليے بيوى ، خاوند کو اپنے مال كى زكاۃ دے سكتى ہے، اس كى دليل مندرجہ ذيل فرمان بارى تعالى كا عموم ہے:
( إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ ) یعنی زكاۃ تو صرف فقراء، مساكين ۔۔۔کیلئے ہے۔ التوبۃ / 60
سوم:
اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے وہ بيوى كا اپنے خاوند كو مال كى زكاۃ دينے كے متعلق تھا، اور رہا مسئلہ خاوند كا اپنے مال كى زكاۃ بيوى كو دينا تو اس كے متعلق ابن منذر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
"علماء كا اس پر اجماع ہے كہ مرد اپنى بيوى كو زكاۃ نہيں دے گا، كيونكہ بيوى كا نفقہ خاوند كے ذمہ واجب ہے، تو بیوی کو خاوندکی زکاۃ کی کوئی ضرورت نہیں" .