"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
جب خاوند اپنى بيوى سے كہے: جب ہم ملك واپس جائيں تو تجھے طلاق:؛ تو آپ دونوں كا اپنے ملك واپس آتے ہى طلاق ہو جائيگى؛ كيونكہ يہ خالصتا تعليق يعنى طلاق معلق كرنا تھى اس ميں كسى كو نہ تو كسى كام پر ابھارا گيا ہے اور نہ ہى تصديق يا تكذيب ہے اور نہ ہى روكا گيا ہے، بلكہ يہ انسان كے اس قول كى طرح ہى ہے:
جب پہلا ماہ آئے يا پھر رمضان شروع ہو يا بادشاہ آئے تو اس كى بيوى كو طلاق، چنانچہ آپ كے خاوند نے اپنى كلام سے آپ كو يا پھر اپنے آپ كو ملك ميں واپس آنے سے روكنا مراد نہيں ليا، اور اسى طرح اس ميں ملك سے باہر رہنے پر ترغيب دلانا مقصود نہ تھا، بلكہ يہ تو خالص تعليق تھى.
اور اگر فرض كريں كہ خاوند يہ كہتا ہے: " ميرا مقصد يہ تھا كہ واپس جانے كے بعد ميں اس كو طلاق دے دونگا، تو اس كى يہ بات قابل قبول نہيں كيونكہ اس يہ قول " تجھے طلاق " صريح طلاق كے الفاظ ميں شامل ہوتا ہے، اس ليے اس كى مراد اور نيت اور طلاق كے وعدہ والى بات قبول نہيں كى جائيگى.
اور رہى وہ تعلقيق جس سے كا مقصد منع كرنا ہو مثلا يہ كہنا: اگر گھر سے نكلى تو تمہيں طلاق، اور خاوند اس سے بيوى كو باہر جانے سے منع كرنا چاہتا ہو، يا پھر وہ تعليق جس سے كسى كام كى ترغيب دلائى گئى ہو، مثلا: اگر تم گھر واپس نہ آئى تو تمہيں طلاق، تو اس ميں فقھاء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے.
جمہور فقھاء كرام كے ہاں جب معلق كردہ كام واقع ہو جائے تو طلاق ہو جائيگى، اور فقھاء كى ايك جماعت كے ہاں طلاق واقع نہيں ہوتى كيونكہ اس نے اس سے طلاق كا ارادہ نہيں كيا تھا بلكہ اس كى مراد روكنا يا كام كى ترغيب دلانا مقصود تھى.
ابن قدامہ رحمہ اللہ نے قاضى ابو يعلى سے طلاق كى قسم اٹھانے والے اور خالص معلق كرنے والے كے درميان فرق بيان كرتے ہوئے كہا ہے:
يہ اس كى وہ تعليق ہے جو اس نے كسى شرط پر معلق كى تھى جس سے اس كا مقصد كسى فعل پر ابھارنا يا كسى كام سے روكنا مقصود تھا، اس كے بالكل اس قول كى طرح: اگر تم گھر ميں داخل ہوئى تو تمہيں طلاق، اور اگر داخل نہ ہوئى تو تمہيں طلاق، يا پھر اس كى خبر كى تصديق كرنے پر معلق كرنا مثلا: زيد آيا نہ آيا تو تمہيں طلاق.
رہا اس كے علاوہ كسى اور پر طلاق كو معلق كرنا مثلا يہ قول: اگر سورج طلوع ہوا تو تمہيں طلاق، يا حاجى آئے تو تمہيں طلاق ، اگر بادشاہ نہ آيا تو تمہيں طلاق، تو يہ ايك خالصتا شرط ہے نہ كہ حلف اور قسم " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 7 / 333 ).
اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" طلاق كى قسم اٹھانا وہ تعليق ہے جس سے حلف اٹھانے والا كسى چيز پر ابھارنا يا كسى چيز سے منع كرنا چاہتا ہو، يا پھر سننے والے يا مخاطب شخص كو تصديق يا تكذيب پر ابھا رہا ہو، تو يہ طلاق كى قسم ہے، اور يہ وہ تعليق كہلاتى ہے جس سے ابھارنا يا منع كرنا يا پھر تصديق يا تكذيب كرنا مقصود ہوتا ہے، اسے طلاق كے ساتھ قسم كا نام ديا جاتا ہے.
بخلاف خالص تعليق كے، كيونكہ اسے قسم نہيں كہا جاتا مثلا اگر كوئى شخص كہے: جب سورج طلوع ہوا تو اس كى بيوى كو طلاق.
يا كہے: جب رمضان شروع ہوا تو اس كى بيوى كو طلاق تو اسے قسم نہيں كہا جائيگا، بلكہ يہ خالص تعليق ہے اور خالص شرط ہے، جب بھى شرط پائى گئى طلاق واقع ہو جائيگى مثلا اگر خاوند كہے:
جب رمضان شروع ہوا تو اس كى بيوى كو طلاق، چنانچہ رمضان شروع ہوتے ہى اس كى بيوى كو طلاق ہو جائيگى.
اور اگر وہ يہ كہے: جب سورج طلوع ہوا تو اس كى بيوى كو طلاق، چنانچہ سورج طلوع ہوتے ہى اس كى بيوى كو طلاق ہو جائيگى.
شيخ رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:
" ليكن اگر اس تعليق ميں نہ تو ترغيب دلائى گئى ہو اور نہ ہى كسى كام سے منع كيا گيا ہو بلكہ وہ خالص شرط ہو تو يہ خالص تعليق ہے اس سے طلاق ہو جائيگى جيسا كہ اوپر بيان كيا گيا ہے، مثلا اگر كوئى كہے:
جب رمضان شروع ہوا تو اس كى بيوى كو طلاق تو يہ خالص شرط ہے اور جب يہ شرط واقع ہو جائے تو طلاق واقع ہو جائيگى؛ كيونكہ شرط پر معلق چيز شرط پورى ہونے سے واقع ہو جائيگى، اور يہى اصل ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى الطلاق ( 129 - 131 ).
مستقل فتاوى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك شخص نے اپنى بيوى سے كہا: جب تمہيں حيض آيا اور تم پاك ہو گئى تو تمہيں طلاق، ليكن اس كے بعد اس كے دل ميں آيا كہ وہ بيوى كو طلاق نہ دے اور اسے اپنے پاس ہى ركھے تو اس كا حكم كيا ہو گا ؟
كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:
" يہ طلاق ايك خالصتا شرط پر معلق كى گئى ہے، اس سے نہ تو ترغيب دلانا اور ابھارنا مقصود ہے اور نہ ہى منع كرنا اور روكنا، چنانچہ شرط پورى ہونے كى صورت ميں طلاق واقع ہو جائيگى، اور وہ يہ كہ حيض كے بعد طہر آ جائے تو طلاق ہو جائيگى، اور اس طلاق كو معلق كرنے كے بعد اس سے رجوع كرنا صحيح نہيں " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 174 ).
واللہ اعلم .