اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

اولاد کی نعمت حاصل کرنے کیلئے دم کے متعلق سوال

26-03-2015

سوال 47059

سوال: میرے ایک بھائی کی شادی کو پانچ سال کا عرصہ ہو گیا ہے لیکن ابھی تک وہ اولاد کی نعمت سے محروم ہیں، کیا وجہ یہ اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے، دونوں میاں بیوی نے اس سے متعلق تمام طبی معائنے کروا لیے ہیں، اور طبی ماہرین نے دونوں کی صحت کے بارے اطمینان کا اظہار کیا ہے، اور انہوں نے یہ بھی بتلایا ہے کہ کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، بس اذن الہی تک صبر کریں۔
لیکن ان کے والدین صبر کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں، انہوں نے ان دونوں میاں بیوی کو کہا ہے کہ اس وظیفہ پر عمل کریں: " دونوں 21 دن روزے رکھیں، اور اللہ تعالی کا اسم مبارک "المصوّر"(یعنی چہرے کی تخلیق کرنے والا) سات بار پڑھ کے ایک کپ پانی پر پھونک ماریں، اور پھر اسی پانی سے روزہ افطار کریں، اللہ کے حکم سے 21 دن پورے ہونے کے بعد انہیں اللہ تعالی اولاد سے نوازے گا" کیا یہ عمل قرآن و سنت کی روشنی میں درست ہے؟ اگر یہ درست ہے تو اس بارے میں کتاب و سنت سے کوئی دلیل دیں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

میاں بیوی کو  انکے والدین نے جس انداز سے دم کرنے کا مشورہ دیا ہے یہ ہمارے علم کے مطابق کتاب و سنت میں ثابت نہیں ہے، اس لئے میاں بیوی کو  یہ عمل ترک کر دینا چاہیے، اور کتاب و سنت میں ثابت شدہ  شرعی دعاؤں اور دم پر عمل کرنا چاہیے۔

جبکہ اللہ تعالی کے اسمائے حسنی کے ذریعے  بانجھ  پن سمیت بیماری سے شفا یابی کی دعا مانگنا  اللہ تعالی کے اس فرمان میں شامل ہے: وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا اللہ تعالی کے اچھے اچھے نام ہیں، اسے انہی کے واسطے سے پکارو[الأعراف : 180]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی لوگوں کو دم کرتے ہوئے اسمائے حسنی کا واسطہ دیا، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے: " أَذْهِبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ، اِشْفِ أَنْتَ الشَّافِيْ لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ "[لوگوں کو پالنے والے! تکلیف دور کر دے،  تو شفا دے، تو ہی شفا دینے والا ہے، تیری شفا کے علاوہ کوئی شفا نہیں ہے] بخاری: (5743)، مسلم: (46، 47، 48)
مزید کیلئے دیکھیں:  "فتاوى اللجنة الدائمة "فتوی نمبر: ( 9120)، مجلۃ البحوث الإسلامیۃ شمارہ نمبر: 27، صفحہ نمبر: 64)

تاہم اسم الہی "المصوّر" کو متعین کرنے  کیلئے دلیل چاہیے، جو کہ کتاب و سنت   میں نہیں ہے ، اس لئے کسی  اسم الہی کو کسی مخصوص کام کیلئے متعین کرنا غیر شرعی عمل ہوگا، جبکہ اس بارے میں شرعی عمل یہ ہے کہ دعا کرنے والا دعا کی مناسبت سے کوئی مناسب اسم الہی اختیار کرے، مثلاً: دعائے مغفرت کیلئے اللہ تعالی کا نام: "الغفار"  کو اپنائے۔

یہاں ایک بات کی طرف توجہ دلانا بھی ضروری ہے کہ : بچوں کی پیدائش   کا تعلق  اللہ تعالی کی مشیئت سے ہے، اس کے بارے میں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں واضح فرمایا ہے کہ:
 لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ (49) أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ
ترجمہ: آسمان و زمین کی بادشاہی اللہ کیلئے ہی ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے، اور جس چاہتا ہے  بیٹیاں عطا کرتا ہے، اور جسے چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے [49] یا انہیں بیٹے بیٹیاں ملا کر عطا  کرتا ہے، اور جسے  چاہتا ہے بانجھ بنا دیتا ہے، بیشک وہ جاننے والا اور قدرت رکھنے والا ہے۔[الشورى : 49 - 50] اس لئے اولاد کا مکمل طور پر اختیار اللہ کے پاس ہے۔

لہذا میاں بیوی دونوں کو چاہیے کہ  اللہ عزوجل  کے سامنے گڑگڑا کر نیک اولاد کا سوال کریں، اور پوری گریہ زاری  کیساتھ  ذکر و دعا میں مشغول رہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا: وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا اور وہ لوگ کہتے ہیں: ہمارے پروردگار! ہمیں  ہماری بیویوں اور اولاد  سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہمیں متقی لوگوں کا پیشوا بنا۔ [الفرقان : 74]

اگر میاں بیوی میں سے کسی ایک میں کوئی بیماری ہے، جس کی وجہ سے  اس محرومی کا سامنا ہے تو  جائز طریقہ کار کے مطابق ادویات کا سہارا لیا جاسکتا ہے، اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمومی فرمان میں شامل ہوگا: (علاج کرو، کیونکہ اللہ تعالی نے ہر بیماری کا علاج رکھا ہے، صرف بڑھاپا ایسی بیماری ہے جس  کا علاج نہیں ہے) اس حدیث کو ابو داود نے اسامہ بن شریک  سے روایت کیا ہے، اور البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔

اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اللہ تعالی نے کوئی بیماری ایسی نازل نہیں کی  جس کیلئے شفا نازل نہ کی ہو) ابن ماجہ: (3482) البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔

اولاد کی نعمت سے محرومی کا کچھ بھی سبب ہو ، ہر حالت میں اللہ تعالی پر کامل بھروسہ ہونا چاہیے، اللہ تعالی پر توکل ہو، اور اللہ کے فیصلوں پر مکمل صبر  کرے، اور یہ یقین رکھے کہ اللہ تعالی نے اس کیلئے اس نعمت سے محرومی پر صبر کرنے کی وجہ سے خوب  اجر عظیم  رکھا ہوا ہے،  اورلوگوں کے حالات زندگی اور مسائل میں  غور و فکر کرنا چاہیے، کہ  کچھ لوگوں کو بد اولاد  کے ذریعے آزمائش میں ڈالا گیا، جن کی وجہ سے انکی زندگی اجیرن ہوگئی، اور کچھ لوگوں کو معذور اولاد کے ذریعے آزمائش میں ڈالا گیا، اور اب وہ  انتہائی تنگی کی زندگی  میں ہے، بالکل اسی طرح ایسے والدین کو بھی دیکھیں جو  اپنی نافرمان اولاد کی وجہ سے پریشان ہیں، اس لئے اللہ تعالی اپنے بندے مؤمن کیلئے وہی  پسند کرتا ہے جو اس کیلئے بہتر ہو، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (مؤمن کا معاملہ تعجب خیز ہے! کہ صرف مؤمن کا ہر معاملہ خیر سے بھر پور ہوتا ہے،  اگر اسے خوشی ملے تو شکر کرتا ہے، جو اس کیلئے بہتری کا باعث ہے، اور اگر اسے تکلیف پہنچے تو  صبر کرتا ہے، اور یہ بھی اس کیلئے خیر کا باعث  ہے) مسلم: (2999)

واللہ اعلم.

دم اور جھاڑ پھونک
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔