"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
اسلام میں صوفیوں کا کیا درجہ اور مکان ہے ؟
اور یہ قول کہاں تک صحیح ہے کہ کچھ عبادت گزار اور اولیاء اللہ تعالی سے رابطہ رکھتے ہیں ، اور بعض لوگ اس کا اعتقاد رکھتے ہیں اور یہ کہ یہ دنیا میں مختلف جگہ اور ادیان میں اس کا ثبوت ملتا ہے ۔
جو لوگ صوفی ہونے یا صوفیوں کے پیروکار ہونے کا دعوی کرتے ہیں ان کی رؤیت کیسے ممکن ہے ؟
اور کیا نماز اور اللہ تعالی کا ذکر اللہ سبحانہ وتعالی سے رابطہ کی ایک قسم نہیں ؟
الحمد للہ.
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے دور میں صوفیت نام کی کوئ چيز نہیں پائ جاتی تھی ، حتی کہ زاھد لوگوں کا ایک گروہ پیدا ہوا جو کہ اون کے موٹے کپڑے پہنا کرتے تھے تو انہیں صوفی کے نام سے پکارا جانے لگا۔
اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ (صوفی ) صوفیا سے ماخوذ ہے اور یونانی زبان میں اس کا معنی " حکمت " ہے نہ کہ جیسا کہ بعض یہ دعوی کرتے ہیں کہ یہ الصفاء سے ماخوذ ہے ، کیونکہ اگر الصفاء کی طرف نسبت کی جاۓ تو صفائ کہا جاۓ گا نہ کہ صوفی ۔
اس نۓ نام اور اس فرقہ نے مسلمانوں میں تفرقہ اور زیاد ہ کردیا ہے ، اور اس فرقہ کے پہلے صوفی حضرات بعد میں آنے والوں سے مختلف ہیں بعد میں آنےوالوں کے اندر بدعات کا بہت زیادہ عمل دخل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ شرک اصغر اور شرک اکبر بھی پیدا ہو چکا ہے ، ان کی بدعات ایسی ہیں جن سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بچنے کا حکم دیتے ہوۓ فرمایا :
( تم نۓ نۓ کا موں سے بچو کیونکہ ہر نیا کام بدعت اور ہر بدعت گمراہی ہے ) سنن ترمذی ، امام ترمذی نے اسے حسن صحیح کہاہے۔
ذیل میں ہم صوفیوں کے اعتقادات اور ان کے دینی طریقوں اور قرآن وسنت پر مبنی اسلا م کا مقارنہ اور موازنہ پیش کرتے ہیں :
صوفی حضرات : کے مختلف طریقے اور سلسلے ہیں ، مثلا تیجانیہ ، نقشبندیہ ، شاذلیہ ، قادریہ ، رفاعیہ ،اور اس کے علاوہ دوسرے سلسلے جن پر چلنے والے یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ ہی حق پر ہیں ان کے علاوہ کوئ اور حق پر نہیں ، حالانکہ اسلام تفرقہ بازی سے منع کرتا ہے ، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ اللہ تعالی نے فرمایا ہے :
اور تم مشرکوں میں سے نہ بنو ان لوگوں میں سے جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور خود بھی گروہ گروہ ہو گۓ ، ہر گروہ اس چيز پر جو اس کے پاس ہے وہ اس میں مگن اور اس پر خوش ہے الروم ( 31- 32 )
صوفی حضرات : نے اللہ تعالی کے علاوہ انبیاء اور اولیاء زندہ اور مردہ کی عبادت کرنی شروع کردی ، اور وہ انہیں پکارتے ہوۓ اس طرح کہتے ہیں ( یا جیلانی ، یا رفاعی ، یا رسول اللہ مدد ، اور یہ بھی کہتے ہیں ، یا رسول اللہ آپ پر ہی بھروسہ ہے ) ۔
اور اللہ تبارک وتعالی اس سے منع فرماتا ہے کہ اس کے علاوہ کسی اور کو ایسی چیز میں پکارا جاۓ جس پر وہ قادر نہیں بلکہ یہ اسے شرک شمار کیا ہے ۔
جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
اور اللہ تعالی کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت مت کرو جو آپ کو کوئ نفع نہ دے سکے اور نہ ہی کوئ نقصان اور ضرر پنچا سکے ، پھر اگر آپ نے ایسا کیا تو تم اس حالت میں ظلم کرنے والوں میں سے ہو جاؤ گے یونس ( 106 )
اور صوفی حضرات : کا یہ اعتقاد ہے کہ کچھ قطب اور ابدال اور اولیاء ہیں جنہیں اللہ تعالی نے معاملات اور کچھ امور سپرد کۓ ہیں جن میں وہ تصرف کر تے ہيں ۔
اوراللہ تعالی نےتو مشرکوں کے جواب کوبیان کرتے ہوۓ یہ فرمایاہے :
اور معاملات کی تدبیر کون کرتا ہے ؟ تو وہ ضرور یہ کہیں گے کہ اللہ تعالی ہی کرتا ہے یونس ( 31 )
تو مشرکین عرب کو ان صوفیوں سے اللہ تعالی کی زیادہ معرفت تھی ۔
اورصوفی حضرات مصائب میں غیراللہ کی طرف جاتے اور ان سے مدد طلب کرتے ہیں ۔
لیکن اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :
اوراگر اللہ تعالی تجھے کوئ تکلیف پہنچاۓ تو اللہ تعالی کے علاوہ کوئ بھی اسےدور کرنے والا نہیں ، اور اگرتجھے اللہ تعالی کوئ نفع دینا چاہے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے الانعام ( 17 )
بعض صوفی حضرات وحدۃ الوجود کا عقیدہ رکھتے ہیں ، تو ان کے ہان خالق اور مخلوق نہیں بلکہ سب مخلوق اور سب الہ ہیں ۔
صوفی حضرات : زندگی میں زھد اور اسباب کو حاصل نہ کرنے اور جھاد کو ترک کرنے کی دعوت دیتے ہیں ۔
لیکن اللہ تبارک وتعالی کافرمان ہے :
اور جوکچھ اللہ تعالی نے آپ کودے رکھاہے اس میں آخرت کے گھر کی بھی تلاش رکھ ، اور اپنے دنیوی حصے کو نہ بھول القصص (77 ) اور اللہ رب العزت کا فرمان ہے : اور تم ان کے مقابلے کے لۓ اپنی طاقت کے مطابق قوت تیار کرو الانفال ( 60 )
صوفی حضرات : اپنے مشائخ کو احسان کے درجہ پر فائز کرتے ہیں اور اپنے مریدوں سے ان کا مطالبہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کا ذکر کرتے وقت اپنے شیخ کا تصور کریں حتی کہ نماز میں بھی شیخ کا تصور ہونا چاہۓ ، حتی کہ ان میں سے بعض تونما ز پڑہتے وقت شیخ تصویر اپنے آگے رکھتے تھے ۔
حالانکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ( احسان یہ ہے کہ عبادت ایسے کرو گویا کہ اللہ تعالی کو دیکھ رہے ہو، اگر آپ اللہ تعالی کونہیں دیکھ رہے تو اللہ تعالی تمہیں دیکھ رہا ہے ) صحیح مسلم ۔
صوفی حضرات : رقص وسرور اور گانے بجانے اور موسیقی اور اونچی آواز سے ذکرکو جائز قرار دیتے ہیں ۔
اور اللہ تعالی کا فرمان تو یہ ہے کہ :
ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالی کا ذکر کیا آتا ہے تو ان کے دل دھل جاتے ہیں الانفال ( 3 )
پھر آپ ان کو دیکھیں گے وہ صرف لفظ جلالہ ( اللہ اللہ اللہ ) کا ذکر کرتے ہیں جو کہ بدعت اور ایسی کلام ہے جو کہ شرعی معنی کے لحاظ سے غیر مفید ہے ، بلکہ وہ تو اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ صرف ( اھ ، اھ ) اور یا پھر ( ہو ، ہو ، ہو ) کرنا شروع کردیتے ہیں ۔
اور اسلام مصادر کتاب وسنت میں تو یہ ہے کہ بندہ رب ایسے کلام سے یاد اور اس کا ذکر کرے جو کہ صحیح اور مفید ہو جس پر اسے اجروثواب سے نوازا جاۓ ، مثلا سبحان اللہ ، الحمد للہ ، لاالہ الا اللہ ، اللہ اکبر ، اوراس طرح کے دوسرے اذکار ۔
صوفی حضرات : مجالس ذکر میں عورتوں اور بچوں کے نام سے غزلیں اور اشعار گاتے اور پڑھتے ہیں اور اس میں باربار عشق و محبت اور خواہشات کی باتیں ایسے دہراتے ہیں گویا کہ وہ رقص وسرور کی مجلس میں ہوں ، اور پھر وہ مجلس کے اندر تالیوں اور چیخوں کی گونج میں شراب کا ذکر کرتے ہیں اور یہ سب کچھ مشرکین کی عادات وعبادات میں سے ہے ۔
اللہ تعالی کا اس کے متعلق فرمان ہے :
اور ان کی نماز کعبہ کے پاس صرف یہ تھی کہ سیٹیاں بجانا اور تالیاں بجانا الانفال ( 35 )
مکاء سیٹی بجانا اور تصدیۃ تالی بجانے کو کہتے ہیں ۔
اور بعض صوفی اپنے آپ کو لوہے کی سیخ مارتے اور یہ پکارتے ہيں (یاجداہ) تو اس طرح شیطان آکر اس کی مدد کرتا ہے کیونکہ اس نے غیراللہ کو پکارا ، اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :
اور جو شخص رحمن کی یاد سے غافل ہو جاۓ ہم اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں وہی اس کا ساتھی رہتا ہے الزخرف ( 36 )
صوفی حضرات : کشف اور علم غیب کا دعوی کرتے ہیں اور قرآن کریم ان کے اس دعوی کی تکذیب کرتا ہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کے فرمان کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :
کہہ دیجۓ کہ آسمان وزمین والوں میں سے اللہ تعالی کے علاوہ کوئ بھی غیب کا علم نہیں جانتا النمل ( 65 )
صوفی حضرات : کا گمان ہے کہ اللہ تعالی نے دنیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لۓ پیدا کی ہے ، اور قرآن کریم ان کی تکذیب کرتے ہوۓ کہتا ہے :
میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لۓ پیدا کیا ہے الذاریات ( 56 )
اور اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کومخاطب کرتے ہوۓ فرمایا یہ فرمایا ہے :
آپ اس وقت تک اپنے رب کی عبادت کرتے رہيں یہاں تک کہ آپ کو موت آجاۓ الحجر ( 99 )
صوفی حضرات : اللہ تعالی کو دنیا میں دیکھنے کا گمان کرتے ہیں اور قرآن مجید ان کی تکذیب کرتا ہے جیسا کہ موسی علیہ السلام کی زبان سے کہا گیا اےمیرے رب ! مجھے اپنا دیدار کردیجۓ کہ میں آپ کو ایک نظر دیکھ لوں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا تم مجھ کو ہر گز نہیں دیکھ سکتے الاعراف ( 143 )
صوفی حضرات : کا گمان یہ ہے کہ وہ بیداری کی حالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ کے بغیر علم ڈاریکٹ اللہ تعالی سے حاصل کرتے ہیں ، تو کیا وہ صحابہ کرام سے بھی افضل ہیں ؟۔
صوفی حضرات : اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ کے بغیرڈاریکٹ اللہ تعالی سے علم حاصل کرتے ہیں اور کہتے ہیں : میرے دل نے میرے رب سے بیان کیا ۔
صوفی حضرات : میلاد مناتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام کے نام سے مجلسیں قائم کرتے ہیں ، اور ان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی مخالفت کرتے ہوۓ شرکیہ ذکر اور قصیدے اور اشعار پڑھتے ہیں جن میں صریح شرک ہوتا ہے ۔
تو کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر ، عمر اور عثمان اور علی رضي اللہ تعالی عنہم اور آئمہ اربعہ وغیرہ نے میلاد منایا تو ان کیا ان کی عبادت اور علم زیادہ صحیح ہے یا کہ صوفیوں کا ؟
صوفی حضرات : قبروں کا طواف یا ان کا تبرک حاصل کرنے کے لۓ سفر کرتے اور ان پر جانور ذبح کرتے ہیں جوکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی صریحا مخالفت ہے ۔ فرمان نبوی ہے :
( صرف تین مسجدوں کی طرف سفر کیا جاۓ مسجد حرام ، اور میری یہ مسجد ، اور مسجد اقصی ) صحیح بخاری و صحیح مسلم ۔
صوفی حضرات : اپنے مشائخ کے بارہ میں بہت ہی متعصب ہیں اگرچہ وہ اللہ تعالی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت ہی کیوں نہ کریں ، اور اللہ تعالی کا تو فرمان یہ ہے : اے ایمان والو ! اللہ تعالی اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو الحجرات ( 2 )
صوفی حضرات : استخارہ کے لۓ طلسم اور حروف استعمال کرتے اور تعویذ گنڈا وغیرہ کرتے ہیں ۔
صوفی حضرات : وہ درود جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں نہیں پڑھتے بلکہ ایسے بناوٹی درود پڑھتے ہیں جس میں صریح تبرک اور شرک پایا جاتا ہے جس پر اللہ تعالی کی رضا حاصل نہیں ہوتی ۔
اوررہا یہ سوال کہ کیا صوفیوں کے مشائخ کا رابطہ ہے تو یہ صحیح ہے ان کا رابطہ شیطان سے ہے نہ کہ اللہ تعالی سے ۔
تو وہ ایک دوسرے کے دل میں چکنی چپڑی باتوں کا وسوسہ ڈالتے ہیں تاکہ انہیں دھوکہ میں ڈالیں اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن بہت سے شیطان پیدا کۓ تھے کچھ آدمی اور کچھ جن ، جن میں سے بعض بعض کو چکنی چپڑي باتوں کا وسوسہ ڈالتے رہتے تھے تا کہ ان کو دھوکہ میں ڈال دیں اوراگر اللہ تعالی چاہتا تو یہ ایسے کام نہ کرتے الانعام ( 112 )
اور اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :
اور بیشک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں ڈالتے ہیں الانعام (121)
اور اللہ سبحانہ وتعالی کے فرمان کا ترجمہ ہے :
کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیطان کس پر اتر تے ہیں وہ ہر ایک جھوٹے گنہگار پر اترتے ہیں الشعراء ( 221 - 222 )
تو یہ وہ حقیقی رابطہ جو ان کے درمیا ن ہوتا ہے نہ کہ وہ رابطہ جو وہ گمان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی سے رابطہ جو کہ بہتان اور جھوٹ ہے اور اللہ تعالی اس سے منزہ اور بلند وبالا ہے ۔ دیکھیں معجم البدع ( 346 - 359 )
اور صوفیوں کے بعض مشائخ کا اپنے مریدوں کی نظروں سے اوجھل ہونا بھی اسی رابطہ کا نتیجہ ہے جو کہ شیطان کے ساتھ ہوتا ہے ، حتی کہ بعض اوقات وہ شیطان انہیں دور دراز جگہ پر لے جاتے ہیں اور پھر اسی دن یا رات کو واپس لے آتے ہیں تا کہ ان کے مریدوں کو گمراہ کیا جاسکے ۔
تواسی لۓ یہ عظیم قاعدہ ہے کہ ہم خارق عادات کاموں سے اشخاص کا وزن نہیں کرتے بلکہ ان کا وزن کتاب وسنت کے قرب اور اس پر التزام کرنے کے ساتھ ہوگا ، اور اللہ تعالی کے اولیاء کے لۓ یہ شرط نہیں کہ ان کے ھاتھ پر خارق عادت کام ہو بلکہ وہ تو اللہ تعالی کی عبادت اس طریقے پر کرتے ہیں جو کہ مشروع ہے نہ کہ بدعات کو رواج دے کر ۔
اولیاء اللہ تو وہ ہیں جو کہ حدیث قدسی میں ذکر کۓ گۓ ہیں جسے امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے روایت کیا ہے ۔
ابو ھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتےہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یقینا اللہ تعالی نے فرمایا ہے : ( جس نے میرے ولی سے دشمنی کی میری اس کے ساتھ جنگ ہے اور جو میرا بندا کسی چيز کے ساتھ میرا قرب حاصل کرتا ہے تو وہ مجھے اس چيزسے زیادہ پسند ہے جو میں نے اس پر فرض کیا ہے اور جو بندہ نوافل کے ساتھ میرا قرب حاصل کرتا ہے تو میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہو ں تو اس کا کان ہوتا ہوں جس سے وہ سنتا اور اس کی بصر ہوتا ہوں جس سے وہ دیکھتا اور اس کا ھاتھ ہوتا ہوں جس سے وہ پکڑتا اور اس کی ٹانگ ہو تا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ، اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے عطا کرتا ہوں اور اگر میری پناہ میں آتا ہے تو میں اسے پناہ دیتاہوں ) ۔
اور اللہ تبارک وتعالی توفیق بخشنے والا اور صحیح راہ پر چلانے والا ہے ۔
واللہ تعالی اعلم .