"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
جب لباس كى حكمت ستر پوشى ہے تا كہ نفس خواہش سے محفوظ رہے، تو پھر مرد كا سينہ گھٹنے اور ناف تك كے ستر ميں كيوں شامل نہيں كيا گيا، حالانكہ يہ مرد كے جسم كا وہ حصہ ہے جو دوسرى جنس كے ليے سب سے زيادہ جاذب نظر ہے.
بعض مشائخ نے مجھے جواب ديا كہ يہ اس ليے ہے كہ عورت چھونے سے متاثر ہوتى ہے، اور مرد ديكھنے سے، تو پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كو كيوں منع نہ كيا جب ام مكتوم جن كى نظر نہيں تھى ملنے آئے تو عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا آپ كے پاس بيٹھى رہيں ؟
اور درج ذيل آيت كيوں نازل ہوئى جس ميں بيان ہوا ہے كہ:
اے نبى ( صلى اللہ عليہ وسلم ) اپنى بيويوں اور اپنى بيٹيوں اور مسلمانوں كى عورتوں كو كہہ دو كہ وہ اپنى نظريں نيچى ركھا كريں ؟
الحمد للہ.
اول:
سوال ميں جو حديث اور آيت بيان كى گئى ہے اسے صحيح نہيں بيان كيا گيا اس ليے جواب دينے سے قبل اس پر متنبہ كرنا ضرورى ہے.
حديث ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كا ذكر نہيں، اور پھر يہ حديث صحيح بھى نہيں ہے.
ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ وہ اور ميمونہ رضى اللہ تعالى عنہا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس تھيں كہ ابن ام مكتوم رضى اللہ تعالى عنہ آپ كے پاس آئے ـ اور يہ پردہ نازل ہونے كے بعد كا واقعہ ہے ـ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
اس سے پردہ كرو، تو ميں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا وہ اندھا نہيں ہے، ہميں ديكھ نہيں سكتا، اور نہ ہى ہميں پہچانتا ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تو كيا تم دونوں بھى اندھى ہو ؟ كيا تم دونوں اسے نہيں ديكھ رہيں ؟ "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 2778 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 4112 ).
اس حديث كى سند ميں مولى ام سلمہ ہے جو مجھول ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 1806 ) ميں اسے ضعيف قرار ديا ہے.
اور سوال ميں جو آيت بيان كى گئى ہے وہ دو آيتوں كے مجموعہ ميں سے ہے:
پہلى آيت يہ ہے:
اے نبى (صلى اللہ عليہ وسلم ) اپنى بيويوں اور اپنى بيٹيوں اور مومنوں كى عورتوں سے كہہ ديں كہ وہ اپنے اوپر اپنى چادريں لٹكا ليا كريں، اس سے بہت جلد ان كى پہچان و شناخت ہو جايا كريگى، پھر وہ نہ ستائى جائينگى، اور اللہ تعالى بخشنے والا مہربان ہے الاحزاب ( 59 ).
دوسرى آيت:
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
آپ مومنوں كو كہہ ديں كہ وہ اپنى نظريں نيچى ركھيں، اور اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كريں، يہ ان كے ليے زيادہ پاكيزگى كا باعث ہے، لوگ جو كچھ كريں اللہ تعالى اس سب سے خبردار ہے اور مومن عورتوں سے بھى كہيں كہ وہ اپنى نظريں نيچى ركھيں اور اپنى عصمت ميں فرق نہ آنے ديں ... النور ( 30 - 31 ).
دوم:
اور رہا مسئلہ اجنبى عورت كا غير محرم مرد كو ديكھنا تو اس كى تفصيل سوال نمبر ( 49038 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے كہ يہ ايك شرط كے ساتھ جائز ہے كہ وہ شہوت كے ساتھ نہ ہو اور فتنہ كا خدشہ بھى نہ ہو، آپ سوال كے جواب كا مطالعہ كريں.
سوم:
مرد كے ليے گھٹنے سے ليكر ناف تك ستر ہونے كا مطلب اور معنى يہ نہيں كہ كوئى مرد دوسرے مرد كے سامنے اپنا سينہ ظاہر كرتا پھرے، چہ جائيكہ كے عورت كے سامنے ايسا كرے، اگر سينہ ستر ميں شامل نہيں بھى تو اسے ننگا كرنا مروت كے خلاف ہے اور فاسق قسم كے لوگوں كے افعال ميں سے ہے.
يہ معلوم ہونا چاہيے كہ جب كسىمباح اور جائز چيز پر كوئى خرابى مرتب ہو رہى ہو تو پھر اس خرابى كى بنا پر اس سے روك ديا جائيگا، اس ليے اگر سينہ ننگا كرنا فتنہ و خرابى كا باعث اور سبب ہو، يا پھر شر و برائى كا دروازہ كھولے تو اس بنا پر مرد اس سے منع كيا جائيگا.
لباس كئى ايك حكمتوں كى بنا پر مشروع كيا گيا ہے، جن ميں فطرت كى موافقت، اور زينت و خوبصورتى، اور سردى و گرمى سے بچاؤ، اور ستر پوشى وغيرہ شامل ہے.
جب اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنے بندوں پر بطور احسان و انعام لباس پيدا كرنے كا ذكر كيا ہے كہ وہ اس لباس سے اپنى ستر پوشى كرتے ہيں، تو اللہ تعالى نے يہاں ايك اور لباس پر بھى متنبہ كيا ہے كہ جو اس لباس سے بھى بڑھ كر ہے اور وہ تقوى و پرہيزگارى كا لباس ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى نے اس كو بيان كرتے ہوئے فرمايا:
اے اولاد آدم ہم نے تمہارے ليے لباس پيدا كيا جو تمہارى شرمگاہوں كو بھى چھپاتا ہے، اور موجب زينت بھى ہے، اور تقوے كا لباس يہ اس سے بڑھ كر ہے، يہ اللہ تعالى كى نشانيوں ميں سے ہے تا كہ يہ لوگ ياد ركھيں
اے اولاد آدم ! شيطان تم كو كسى خرابى ميں نہ ڈال دے جيسا كہ اس نے تمہارے ماں باپ كو جنت سے باہر نكلوا ديا تھا، ايسى حالت ميں ان كا لباس بھى اتروا ديا تا كہ وہ ان كو ان كى شرمگاہيں دكھائے، وہ اور اس كا لشكر تمہيں ايسے طور پر ديكھتا ہے كہ تم ان كو نہيں ديكھتے ہو، ہم نے شيطانوں كو ان ہى لوگوں كا دوست بنايا ہے جو ايمان نہيں لاتے الاعراف ( 26 - 27 ).
شيخ عبدالرحمن السعدى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" پھر اللہ تعالى نے ان پر بطور احسان اور انعام اس ضرورى لباس كو ذكر كيا جو انہيں اچھا لگتا ہے، اور وہ لباس جس سے مقصود خوبصورتى و جمال ہے، اور اسى طرح سب اشياء مثلا كھانا پينا، اور سوارياں، اور نكاح وغيرہ، اللہ سبحانہ و تعالى نے بندوں كے ليے ان كى ضروريات آسان كى ہيں، اور اسے پورا كرنے والا ہے، اور ان كے ليے بيان كيا ہے كہ يہ بالذات مقصود نہيں، بلكہ اللہ تعالى نے تو اسے اس ليے پيدا كيا ہے تا كہ وہ ان كے ليے عبادت و تقوى اور اللہ كى اطاعت ميں ممد و معاون ہو، اسى ليے اللہ تعالى نے فرمايا:
اور تقوے كا لباس اس سے بڑھ كر ہے .
يہ حسى لباس ميں سے ہے، كيونكہ تقوے كا لباس بندے كے ساتھ مستقل رہتا ہے، نہ تو بوسيدہ ہوتا ہے اور نہ ہى پرانا، اور يہ دل اور روح كى خوبصورتى و جمال ہے.
اور ظاہرى لباس كى غرض و غايت بعض اوقات ظاہرى ستر پوشى ہے، يا پھر انسان كے ليے خوبصورتى و جمال ہے، اس كے علاوہ اس ميں كوئى نفع نہيں.
اس لباس كى عدم موجودگى فرض كريں تو ظاہرى شرمگاہ ننگى ہو جائيگى جسے ضرورت كے ساتھ ظاہر كرنےميں كوئى ضرر نہيں.
ليكن تقوے كے لباس كى عدم موجودگى باطنى ستر كو ظاہر كر ديتى ہے، اور اس سے ذلت و رسوائى حاصل ہوتى ہے.
اور فرمان بارى تعالى:
يہ اللہ تعالى كى نشانيوں ميں سے ہے تا كہ وہ ياد ركھيں اور نصيحت حاصل كريں .
يعنى: يہ مذكورہ لباس جسے تم ياد كرتے ہو جو تمہيں نفع و فائدہ بھى ديتا ہے اور ضرر بھى، اور تم ظاہرى لباس سے باطن پر استعانت ليتے ہو "
ديكھيں: تفسير السعدى صفحہ نمبر ( 248 ).
واللہ اعلم .