"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اولاد كا اپنے والد كے ساتھ حسن سلوك اور نيكى، اور والد كا ان پر يہ حق ہے كہ ان كے والد نے مذكورہ حصص سے جو منافع ليا تھا اسے رفاہ عامہ مثلا راستہ اور مدرسہ وغيرہ كى تعمير ميں صرف كرديں، ليكن يہ ضرورى ہے كہ اس مال سے اپنے يا دوسروں كے كھانے كے ليے غلہ نہ خريديں - دوسروں كے ليے ورع كى بناء پر- اور نہ ہى اس مال سے مسجد تعمير كى جائے، اور اس مال كو دينے ميں ان كى نيت اپنے والد كو گناہ سے نكالنے كى ہو نہ كہ اللہ تعالى كا قرب حاصل كرنے كى، كيونكہ اللہ تعالى پاك ہے اور پاكيزہ چيز كے علاوہ كچھ قبول نہيں كرتا.
چاہے بعينہ وہ مال نكاليں يا اس كے بدلے ميں اپنے خاص مال سے نكاليں اس ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ حرمت كا تعلق تو كمائى سے ہے، نہ كہ بعينہ اسى رقم كے ساتھ، لھذا اگر وہ حرام كمائى جتنا مال نكال ديں تو كافى ہے.
ابن قيم رحمہ اللہ تعالى مباح اور ممنوع كے اختلاط ميں قاعدہ بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:
( اس كى دو قسميں ہيں: پہلى قسم يہ ہے كہ: وہ ممنوع بعينہ حرام ہو، مثلا خون اور پيشاب....
اور دوسرى قسم يہ ہے كہ: وہ كمائى كے اعتبار سے حرام ہو، نہ كہ بعينہ حرام ہو، مثلا غصب كردہ درھم، تو يہ دوسرى قسم حلال سے اجتناب واجب نہيں كرتى اور نہ ہى بالكل اسے حرام كرتى ہے، بلكہ جب اس كے مال ميں ايك درہم يا اس سے زيادہ حرام مل جائے تو اس سے حرام كى مقدار نكال دى جائے گى، اور باقى مال بغير كسى كراہت كے حلال ہو گا، چاہے نكالا گيا وہى حرام ہو يا اس طرح كا ، كيونكہ حرمت كا تعلق درہم كى ذات سے نہيں بلكہ اس كا تعلق تو كمائى كے طريقہ سے ہے... ) اھـ
ديكھيں: بدائع الفوائد ( 3 / 257 ).
واللہ اعلم .