اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

كيا ننگے ہو كر غسل كرنا جائز ہے ؟

21-02-2007

سوال 6894

كيا اسلام ميں ننگے ہو كر غسل كرنا جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح بخارى ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" موسى عليہ السلام بہت ہى شرميلے اور باپرد انسان تھے، شرميلا پن كى بنا پر ہى ان كى جلد كا كوئى حصہ بھى نہيں ديكھا جا سكتا تھا، چنانچہ بنى اسرائيل ميں سے كئى ايك نے انہيں اذيت پہنچائى اور يہ كہنے لگے:

يہ اپنا جسم صرف اس ليے چھپاتا ہے كہ اسے كوئى جلدى بيمارى ہے، يا تو برص كا شكار ہے، يا پھر خصيتين كى بيمارى ميں مبتلا ہے، يا كوئى اور آفت كا شكار ہے، اور اللہ تعالى نے ان كے اس قول سے موسى عليہ السلام كو برى كرنا چاہا، چنانچہ ايك روز موسى عليہ السلام اكيلے تھے تو انہوں نے اپنا لباس اتار كر ايك پتھر پر ركھا اور غسل كرنے لگے، اور جب غسل سے فارغ ہوئے اور اپنا لباس لينے كے ليے آگے بڑھے تو پتھر لباس لے كر بھاگ كھڑا ہوا چنانچہ موسى عليہ السلام نے اپنا لاٹھى پكڑى اور پتھر كے پيچھے بھاگتے ہوئے كہنے لگے: ارے پتھر ميرا لباس، اے پتھر ميرا لباس، حتى كہ بنى اسرائل كے رؤساء ميں سے كچھ كے پاس پہنچ گئے تو انہوں نے انہيں ننگے اور بے لباس ديكھا تو اللہ كى مخلوق ميں سے بہترين اور حسن والے تھے، اس طرح اللہ تعالى نے ان كے قول سے موسى عليہ السلام كو برى كر ديا، اور پتھر وہاں رك گيا اور موسى عليہ السلام نے اپنا لباس لے كر پہن ليا، اور پتھر كو اپنى لاٹھى سے مارنے لگے.

اللہ كى قسم پتھر پر تين يا چار يا پانچ ضرب كے نشان پڑ گئے، اور اللہ تعالى كا قول يہى ہے:

اے ايمان والو تم ان لوگوں كى طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے موسى عليہ السلام كو اذيت سے دوچار كيا، چنانچہ اللہ تعالى نے انہيں اس سے برى كر ديا جو وہ كہتے تھے، اور وہ اللہ تعالى كے ہاں وجاہت كے مالك ہيں."

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3404 ).

اس حديث سے علماء كرام نے استدلال كيا ہے كہ اگر عليحدگى ميں ہو تو ننگے ہونا جائز ہے، خاص كر جب كوئى ضرورت ہو مثلا غسل وغيرہ كى اس جواز كے اكثر علماء كرام قائل ہيں، جيسا كہ حافظ ابن حجر نے فتح البارى ميں ذكر كيا ہے.

ديكھيں: فتح البارى ( 1 / 385 ).

اور امام بخارى رحمہ اللہ نے اس حديث پر باب باندھتےہوئے لكھا ہے:

" خلوت ميں اكيلے ننگے ہو كر غسل كرنے، اور پردہ كرنے والے كے متعلق بيان، اور پردہ ميں رہنا افضل ہے كے متعلق باب "

پردہ كى افضليت اصحاب سنن كى حديث سے ماخوذ ہے، امام ترمذى نے اسے حسن اور امام حاكم نے اسے صحيح قرار ديا ہے، وہ روايت معاويہ بن حيدہ رضى اللہ عنہ سےمروى ہے وہ بيان كرتے ہيں:

" اے اللہ تعالى كے نبى صلى اللہ عليہ وسلم ہم اپنے ستر ميں سے كيا چھپائيں اور كيا نہ چھپائيں ؟

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

اپنى شرمگاہ كى حفاظت كرو، مگر اپنى بيوى يا اپنى لونڈى سے.

ميں نے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: اگر ہم ميں سے كوئى اكيلا اور عليحدگى ميں ہو تو پھر ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

اللہ تعالى كا زيادہ حق ہے كہ لوگوں كى بنسبت اس سے حياء كى جائے"

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.

واللہ اعلم .

غسل
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔