"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
خاوند كا اپنى بيوى كو اپنے ليے حرام كرنے كے حكم ميں فقھاء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، كچھ فقھاء نے اس پر ظھار كا حكم لگايا ہے، اور كچھ فقھاء نے اسے طلاق كا حكم ديا ہے.
راجح قول تو يہى معلوم ہوتا ہے كہ اگر اس سے طلاق كى نيت كى جائے تو يہ طلاق ہو گى، اور اگر ظھار كى نيت كرے تو ظھار اور اگر قسم كى نيت كرے تو قسم، يہ اس كى نيت پر منحصر ہے.
اور اگر اس سے كچھ بھى نيت نہيں كى تو پھر اس پر قسم كا كفارہ ہوگا، امام شافعى رحمہ اللہ كا مسلك يہى ہے.
اس كى دليل يہ ہے كہ: يہ الفاظ طلاق كے ليے بھى بولے جا سكتے ہيں، اور ظھار كے ليے بھى اور قسم كے ليے بھى، اس ليے اس كى تعيين كے ليے تو قائل كى نيت ديكھى جائيگى، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اعمال كا دارمدار نيتوں پر ہے، اور ہر شخص كے ليے وہى ہے جو اس نے نيت كى ہو "
اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں:
" جب آدمى اپنى بيوى كو اپنے ليے حرام كرے تو يہ قسم ہے اس كا كفارہ ادا كريگا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4911 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1473 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر كوئى قائل يہ كہے كہ: ان تين امور ( يعنى طلاق، ظھار اور قسم ) ميں كيا فرق ہے ؟
تو ہم كہيں گے: ان ميں فرق يہ ہے كہ:
پہلى حالت: قسم ميں اس نے حرام كرنے كى نيت نہيں كى ليكن ممانعت كى ايك قسم كى نيت كى ہے، يا تو معلق يا پھر غير معلق، مثلا وہ كہے: اگر تم نے ايسے كيا تو تم مجھ پر حرا ہو، تو يہ معلق ہے، اس كا مقصد اپنے ليے بيوى كو حرام كرنا نہ تھا، بلكہ اس كا مقصد تو بيوى كو اس كام سے روكنا اور منع كرنا ہے.
اور اسى طرح يہ الفاظ: " تم مجھ پر حرام ہو " سے اس كا مقصد بيوى كور وكنا ہے، تو ہم يہ كہتے ہيں كہ: يہ قسم ہے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے نبى ( صلى اللہ عليہ وسلم ) آپ اس چيز كو اپنے ليے حرام كيوں كرتے ہيں جسے اللہ نے آپ كے ليے حلال كيا ہے، آپ اپنى بيويوں كى رضامندى حاصل كرنا چاہتے ہيں .....
پھر اس كے بعد اللہ سبحانہ و تعالى نے فرمايا:
يقينا اللہ سبحانہ و تعالى نے تمہارے ليے تمہارى قسموں كو كھولنا واجب كر ديا ہے .
اللہ كا فرمان: اللہ نے آپ كے ليے جو حلال كيا ہے.
اس ميں ما اسم موصولہ ہے جو عموم كا فائدہ ديتا ہے اور يہ بيوى اور لونڈى اور كھانے پينے اور لباس وغيرہ سب كو شامل ہے، تو اس كا حكم قسم كا حكم ہے.
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں:
" جب كوئى شخص اپنى بيوى سے كہے: تم مجھ پر حرام ہو تو يہ قسم ہے وہ اس كا كفارہ ادا كريگا، اور اس كا اس آيت سے استدلال ظاہر ہے.
دوسرى حالت:
اس سے خاوند طلاق كا ارادہ ركھتا ہو اور " تم مجھ پر حرام ہو " سے وہ عليحدگى كى نيت كرے تو يہ طلاق كہلائيگى اس ليے كہ يہ عليحدگى كے ليے صحيح، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اعمال كا دارومدار نيتوں پر ہے، اور ہر شخص كے ليے وہى ہے جو اس نے نيت كى "
تيسرى حالت:
اس سے ظھار كا ارادہ كيا ہو، ظھار كا معنى يہ ہے كہ وہ بيوى اس پر حرام ہے، بعض اہل علم كا كہنا ہے كہ يہ ظھار نہيں كيونكہ اس ميں ظھار كے الفاظ نہيں ہيں.
اور بعض علماء كہتے ہيں كہ يہ ظھار ہے؛ كيونكہ بيوى سے ظھار كرنے والے كے قول كا معنى يہى ہے " تم مجھ پر ميرى ماں كى پشت كى طرح ہو " اس كا معنى حرام كے علاوہ كچھ نہيں ليكن اس نے اسے حرمت كے سب سے اعلى درجہ سے مشابہت دى ہے اور وہ ماں كى پشت ہے، اس ليے كہ يہ اس پر سب سے زيادہ حرام ہے تو يہ ظھار كہلائيگا " انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 5 / 476 ).
ہم يہاں اس طرح كے الفاظ كے خطرناك ہونے كى تنبيہ كرتے ہيں كہ يہ بہت خطرناك ہيں، ان الفاظ مطلقا بولنے سے اجتنا كرنا چاہيے تا كہ ازدواجى تعلقات اور عقد نكاح كو محفوظ ركھا جا سكے، كہ كہيں اس سے ان تعلقات ميں بگاڑ پيدا نہ ہو جائے اور خاندان كا شيرازہ ہى بكھر جائے.
واللہ اعلم .