"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
الحمدللہابن صیاد کا نام صافی، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عبداللہ بن صیاد یا صائد ہے ۔
یہ مدینہ کے یہودیوں میں سے تھا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انصار میں سے تھا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو یہ چھوٹا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسلمان ہو گیا تھا ۔
ابن صیاد دجال تھا اور بعض اوقات کہانت کرتا تو جھوٹ اور سچ بولتا رہتا تھا اس کی خبر لوگوں میں پھیل گئي اور یہ مشہور ہو گیا کہ یہ دجال ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ کیا کہ اس کے حالات کی خبر لیں تا کہ اس کے معاملے کی وضاحت ہو جائے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم چھپ کر اس کی طرف گۓ تا کہ اس کی کوئی بات سن سکیں اور اس پر کچھ سوال کرتے تھے جن سے ان کی حقیقت منکشف ہوتی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زندہ رہا اور حرہ کی لڑائی والے دن غائب ہو گیا ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ابن صیاد کے ساتھ قصہ :
امام بخاری بیان کرتے ہیں کہ ہمیں عبدان نے عبداللہ سے حدیث بیان کی وہ یونس سے اور یونس زہری سے بیان کرتے ہیں اور زہری بیان کرتے ہیں کہ سالم بن عبداللہ نے مجھے بتایا کہ انہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک گروپ میں ابن صیاد کی طرف گۓ تو اسے بنو غلم کے قلعہ کے پاس بچوں میں کھیلتے ہوئےپایا اور ابن صیاد بلوغت کے قریب پہنچ چکا تھا تو اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کا کچھ پتہ نہ چلا حتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہاتھ سے مارا پھر ابن صیاد کو کہنے لگے کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں تو ابن صیاد نے ان کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امیوں کے رسول ہیں تو ابن صیاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہنے لگا کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا اور رفض کر دیا اور کہنے لگے میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہا کہ تو کیا دیکھتا ہے ابن صیاد کہنے لگا میرے پاس سچا اور جھوٹا آتا ہے
تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھ پر معاملہ الٹ پلٹ ہو گیا ہے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہا میں تیرے لۓ ایک چھپانے والی چیز چھپائی ہے تو ابن صیاد کہنے لگا وہ الداخ ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ذلیل ہو جا تیری قدر بڑھ نہیں سکتی تو عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن اتار دوں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ رہنے والا ہے تو تو اس پر مسلط نہیں ہو سکتا اور اگر نہیں تو اس کے قتل میں آپ کی کوئی بھلائی نہیں اور سالم کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا وہ کہہ رہے تھے اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کھجوروں کے باغ میں گۓ جہاں ابن صیاد موجود تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بہت زیادہ کوشش تھی کہ ابن صیاد کے دیکھنے سے قبل ان کی چوری چھپے بات سنی جائے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا کہ وہ اپنی چھو درا چادر میں لپٹا ہوا تھا اور اس کی نہ سمجھ آنے والی آواز تھی جس سے اس کے ہونٹ ہل رہے تھے تو ابن صیاد کی ماں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کہ کھجور کے تنوں کے پیچھے پیچھے چھپ چھپ کر چل رہے تھے دیکھ کر ابن صیاد کو کہا اے صاف جو کہ ابن صیاد کا نام ہے یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو ابن صیاد کود کر اٹھ بیٹھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے اگر وہ اسے چھوڑ دیتی تو اس کا معاملہ واضح ہو جاتا ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر 1255
قولہ اطم : دونوں کے ضمہ کے ساتھ قلعہ کی طرح عمارت کو کہتے ہیں ۔
ان کا یہ قول : مغالۃ: انصار میں ایک قبیلہ
اور ان کا یہ قول : فرفضہ : یعنی اسے چھوڑ دیا ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ تھا کہ اس کے علم کے بغیر اس کی کلام سن سکیں ۔
اور یہ قول کہ : ( لہ فیہا رمزۃ او زمرۃ ) اور ایک روایت میں زمزمۃ کے لفظ ہیں ۔
پوشیدہ اور دھیمی آواز کے معنی میں ، یا بات کرنے میں ہونٹوں کا حرکت کرنا ، یا بے معنی کلام ۔
مندرجہ بالا حدیث کی شرح کے لۓ صحیح بخاری کی شرح فتح الباری کتاب الجنائز دیکھیں۔
کیا ابن صیاد ہی دجال اکبر ہے ؟
مندرجہ بالا حدیث جس میں ابن صیاد کے بعض حالات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسے امتحان میں ڈالنا مذکور ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابن صیاد کے معاملے میں توقف اختیار کۓ ہوئےتھے کیونکہ ان کی طرف یہ وحی نہیں کی گئي تھی کہ وہ دجال اکبر وغیرہ ہے ۔
اور صحابہ میں اکثر کا خیال تھا کہ ابن صیاد ہی دجال ہے اور عمر بن خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی موجودگی میں حلفا کہا کرتے تھے کہ وہ دجال ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا انکار نہیں کیا ۔
محمد بن منکدر کی حدیث میں موجود ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ وہ اللہ کی قسم اٹھا کر کہتے تھے کہ ابن صیاد دجال ہے تو میں نے کہا کہ آپ اللہ کی قسم اٹھاتے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ وہ اس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قسم اٹھا رہے تھے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا انکار نہیں کیا ۔
صحیح بخاری شریف حدیث نمبر ( 6808)
اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کو ابن صائد کے ساتھ ایک عجیب قصہ پیش آیا جو کہ صحیح مسلم میں موجود ہے :
نافع بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما ابن صائد کو مدینہ کے کسی راستے میں ملے تو اسے ایسی بات کہی جس سے وہ غصہ میں آ گیا اور اس کی رگیں پھول گئیں حتی کہ گلی ( لوگوں سے) بھر گئي تو ابن عمر رضی اللہ عنہما حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس گۓ تو انہیں یہ خبر پہنچ چکی تھی تو وہ کہنے لگیں اللہ تجھ پر رحم کرے ابن صیاد سے تو کیا چاہتا ہے کیا تجھے اس کا علم نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس غصہ کی بنا پر نکلے گا جو اسے غصہ دلآئے گا ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر (2932)
تو اس کی باوجود ابن صیاد جب بڑا ہوا تو اس نے اپنے دفاع کی کوشش کی اور اس کا انکار کرنے لگا کہ وہ دجال ہے اور اس تہمت سے اسے تنگی محسوس ہونے لگی کہ وہ دجال ہے اور اس میں وہ دلیل یہ لیتا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دجال کی صفات بتائیں ہیں وہ اس میں نہیں پائی جاتیں ۔
اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ :
وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حج یا عمرے کے لۓ نکلے تو ہمارے ساتھ ابن صائد بھی تھا تو ابو سعید رضي اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے ایک جگہ پڑاؤ کیا تو سب لوگ بکھر گۓ تو میں اور وہ باقی رہے تو مجھے اس سے اس وجہ کی بنا پر جو کچھ اس کے متعلق کہا جاتا تھا بہت زیادہ وحشت ہونے لگی ۔
ابو سعید ( رضي اللہ عنہ ) کہتے ہیں کہ اس نے اپنا سامان لا کر میرے سامان کے ساتھ رکھ دیا تو میں نے کہا : گرمی بہت سخت ہے اگر تو اس درخت کے نیچے رکھ دیتا ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس نے ایسا ہی کیا ، ابو سعید رضي اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے سامنے ایک بکری لائی گئي تو وہ ایک بڑا پیالہ لایا اور کہنے لگا اے ابو سعید ( رضی اللہ عنہ ) پیو میں نے کیا کہ گرمی بہت سخت ہے اور دودھ گرم ہے میں تو صرف اس کے ہاتھ سے لے کر پینا اور پکڑنا نا پسند کرتا تھا تو وہ کہنے لگا : اے ابو سعید ( رضي اللہ عنہ ) لوگ جو کچھ مجھے کہتے ہیں اس کی بنا پر میں نے یہ ارادہ کیا ہے کہ رسی لے کر درخت کے ساتھ باندھوں اور اس سے لٹک کر پھانسی لے لوں ۔
اے ابو سعید ( رضی اللہ عنہ ) کون ہے جس پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پوشیدہ ہو اے انصار کی جماعت تم پر تو پوشیدہ نہیں کیا آپ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو زیادہ نہیں جانتے ؟ کیا رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ کافر ہو گا اور میں مسلمان ہوں ؟ کیا رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ اس بانجھ اور اس کی کوئی اولاد نہیں ہو گی اور میں تو اپنا بیٹا مدینہ چھوڑ کے آرہا ہوں ؟
کیا رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ مکہ اور مدینہ میں داخل نہیں ہو گا اور میں مدینہ سے آرہا اور مکے کا ارادہ ہے ؟
ابو سعید ( رضی اللہ عنہ ) کہتے ہیں کہ قریب ہے کہ میں اسے معذور سمجھتا پھر وہ کہنے لگا اللہ کی قسم میں اسے جانتا ہوں اور اس کی پیدائش کو بھی اور وہ اس وقت کہاں ہے اس کا بھی مجھے علم ہے ۔
ابو سعید ( رضی اللہ عنہ ) کہتے ہیں کہ میں نے اسے کہا ساری عمر تیری تباہی ہو ۔
صحیح مسلم حدیث نمبر (4211)
اور ایک روایت میں ہے کہ : ابن صیاد نے کہا : اللہ کی قسم مجھے یہ علم ہے کہ وہ اس وقت کہاں ہے اور اس کے ماں اور باپ کو بھی جانتا ہوں اور اسے یہ کہا گیا تجھے یہ پسند ہے کہ وہ آدمی تو ہی ہو ؟ تو وہ کہنے لگا اگر مجھ پر یہ پیش کیا گیا تو میں نا پسند نہیں کروں گا ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر (5210)
ابن صیاد کے متعلق جو کچھ آیا ہے وہ علماء پر خلط ملط اور اس کے معاملے میں انہیں اشکال ہے ۔
کچھ تو کہتے ہیں کہ وہ دجال ہے اور کچھ کہتے ہیں کہ وہ دجال نہیں اور ہر ایک فریق کے پاس دلیل ہے تو ان کے اقوال آپس میں بہت مختلف ہیں اور ابن جحر رحمہ اللہ نے ان اقوال کے درمیان جمع کرنے کی کوشش کی ہے ان کا کہنا ہے کہ :
تمیم الداری رضی اللہ عنہ والی حدیث میں جو کچھ ہے وہ اور یہ کہ ابن صیاد ہی دجال ہے کے درمیان جمع اس طرح ہے کہ تمیم الدارمی رضي اللہ عنہ نے جسے دیکھا ہے بعینہ دجال تو وہی ہے اور ابن صیاد شیطان ہے جو کہ دجال کی شکل میں اس مدت کے درمیان ظاہر ہوا یہاں تک کہ وہ اصبہان کی طرف جا نکلا اور وہاں اپنے قرین کے ساتھ جا چھپا یہاں تک کہ اللہ تعالی وہ وقت لے آئے جس میں اس کا خروج ہو گا ۔
فتح الباری ( 13 / 328)
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ : ابن صیاد دجالوں میں سے ایک دجال ہے وہ دجال اکبر نہیں ۔
واللہ اعلم .