"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
اللہ سبحانہ و تعالى نے بيوى اپنى عظيم نشانى بنايا ہے اور بتايا ہے كہ شادى كى عظيم حكمتوں ميں خاوند اور بيوى كا آپس ميں محبت و مودت اور سكون جيسى نعمت شامل ہے اور خاوند بيوى دونوں پر ايك دوسے سے حسن معاشرت كو واجب كيا ہے، يہ سب كچھ قرآن مجيد كى آيات ميں موجود ہے جسے سب مسلمان جانتے اور تلاوت كرتے ہيں.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور اللہ كى نشانيوں ميں يہ بھى شامل ہے كہ اس نے تمہارے ليے تم ميں سے ہى بيوياں پيدا كيں، تا كہ تم اس كى طرف سكون حاصل كر سكو، اور تمہارے مابين محبت و مودت اور الفت قائم كر دى، يقينا اس ميں غور و فكر كرنے والى قوم كے ليے نشانياں پائى جاتى ہيں الروم ( 21 ).
اور ايك مقام پر اللہ رب العزت كا فرمان ہے:
اور ان ( بيويوں ) كے ساتھ حسن معاشرت اور اچھے سلوك كے ساتھ رہو، اگر تم انہيں ناپسند كرتے ہو تو ہو سكتا ہے تم كسى چيز كو ناپسند كرو اور اللہ سبحانہ و تعالى اس ميں خير كثير پيد كر دے النساء ( 19 ).
اور اللہ سبحانہ و تعالى نے بعض اوقات اور شروط كے ساتھ بيوى كو مارنے كى بھى اجازت دى ہے، جيسا كہ درج ذيل فرمان بارى تعالى ميں ہے:
اور جن عورتوں كى تمہيں بددماغى اور نافرمانى كا ڈر ہو تو تم انہيں وعظ و نصيحت كرو، اور انہيں بستر ميں عليحدہ چھوڑ دو، اور انہيں مار كى سزا دو النساء ( 34 ).
اور اس طرح رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى حجۃ الوداع كے موقع پر فرمايا تھا:
" اور تمہارا ان ( بيويوں ) پر يہ بھى حق ہے كہ تمہارا بستر كوئى بھى ايسا شخص نہ روندے جسے تمہيں ناپسند كرتے ہو، اور اگر وہ ايسا كريں تو تم انہيں ہلكى سى مار كى سزا دو "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1218 ).
حكيم بن معاويہ القشيرى رحمہ اللہ اپنے باپ سے بيان كرتے ہيں، وہ كہتے ہيں ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہم ميں سے كسى ايك كى بيوى كا خاوند پر كيا حق ہے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم كھاؤ تو بيوى كو بھى كھلاؤ، اور جب تم پہنو تو بيوى كو بھى پہناؤ، اور اس كے چہرے پر مت مارو، اور اسے قبيح مت كہو، اور اس سے گھر كے علاوہ بائيكاٹ مت كرو "
ابو داود رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" و لاتقبح " كا معنى ہے كہ تم اسے قبحك اللہ " اللہ تجھے قبيح بنائے مت كہو.
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2142 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
مندرجہ بالا آيت اور احاديث ميں بيوى كو مارنے كى شروط بيان ہوئى ہيں كہ سب سے پہلے بيوى كو وعظ و نصيحت كى جائيگى، اور اگر يہ فائدہ نہ دے تو پھر اسے بستر سے عليحدہ كيا جائيگا، اور اس كے بعد آخرى چيز مار ہے اور وہ بھى ہلكى سے مار كى سزا ہے جس ميں اسے زخم نہ ہو اور نہ ہى ہڈى ٹوٹے، بلكہ مقصد تو بيوى كو يا اس كے گھر والوں كو ادب سكھانا ہے.
اور يہ بھى اس حالت ميں ہوگا جب مار كا سبب شرعى ہو مثلا بيوى كوئى واجب ترك كر رہى ہے يا پھر كسى حرام فعل كى مرتكب ہو رہى ہے.
بلاشك و شبہ اس خاوند نے آپ كے ساتھ جو كچھ كيا ہے ـ اگر يہ سب كچھ سچ ہے ـ تو يہ اس كى بہت بڑى بلكہ انتہائى بے وقوفى اور بدعقلى ہے، اور اسى طرح يہ تو شريعت مطہرہ كے بھى مخالف اور گناہ كا باعث ہے.
كون ہے جو بيوى كا سر ديوار كے ساتھ مارنے كو جائز قرار ديتا ہو، يا پھر ريسلنگ اور كشتى كے فن بيوى پر آزمانے كو جائز كہے ؟!
دوم:
آپ كے ساتھ خاوند نے جو كچھ كيا ہے اس كى بہت زيادہ ذمہ دارى تو آپ كے گھر والوں اور خاص كر والدہ پر ہے، كيونكہ انہيں چاہيے تھا كہ وہ آپ پر اعتماد كرتے اور آپ كى بات كو سنتے، اور آپ كو آپ كے خاوند كے سپرد اس وقت تك نہ كرتے جب تك اس سے عہد و پيمان نہ لے ليتے كہ آئندہ ايسا نہيں كريگا، اور آپ كے ساتھ برے سلوك كى بجائے حسن سلوك سے پيش آئيگا، اور آپ كے سارے حقوق ادا كرتا رہےگا.
سوم:
رہى آپ كى خاوند كے ليے بددعا كرنا، اس سلسلہ ميں گزارش ہے كہ شريعت مطہرہ نے مظلوم كے ليے ظالم كے خلاف دعا كرنا مشروع كيا ہے، اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خبردار كرتے ہوئے بتايا كہ ہر كسى كو مظلوم كى دعا سے بچ كر رہنا چاہيے، كہ كہيں اسے مظلوم كى بد دعا نہ لگ جائے، اور يہ بھى بتايا ہے كہ مظلوم كى دعا قبول ہوتى ہے، اس كى دعا كے مابين كوئى پردہ حائل نہيں ہے.
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" مظلوم كى دعا سے بچ كر رہو، كيونكہ اس كى دعا اور اللہ كے درميان كوئى پردہ حائل نہيں ہوتا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1425 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 19 ).
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تين قسم كى دعائيں قبول ہونے ميں كوئى شك و شبہ نہيں ہے: مظلوم كى دعا، اور مسافر كى دعا، اور والد كى اپنے بچوں كے ليے دعا "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1905 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 3862 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب و الترھيب حديث نمبر ( 1655 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
آخر ميں ہم اللہ سبحانہ و تعالى سے دعاگو ہيں كہ وہ آپ كے صبر و تحمل پر آپ كو اجر عظيم عطا فرمائے، آپ يہ جان ليں كہ اللہ سبحانہ و تعالى مظلوم كى مدد كرتا اور اس كى دعا كو قبول فرماتا ہے.
اور آپ كو خاوند سے اپنا مال طلب كرنے كا حق حاصل ہے، اور آپ كو خاوند سے خلع لينے كا بھى حق ہے؛ كيونكہ آپ كا اس كے ساتھ رہنا نقصاندہ اور ضرر كے قابل ہے، ليكن يہ چيز فتوى كے ذريعہ نہيں ہوگى، بلكہ شرعى قاضى كے فيصلہ كے مطابق ہوگى، اس كا فيصلہ قاضى كريگا.
يعنى خلع وغيرہ كے ليے قاضى آپ كى بات اور مقدمہ سنے گا، جو كچھ آپ كہہ رہى ہيں اگر وہ ثابت ہو گيا تو آپ كو حق دلايئگا، اور آپ كو مكمل حقوق كى ادائيگى كے ساتھ خلع كا اختيار دےگا، اس ليے آپ شرعى عدالت ميں جانے سے تردد مت كريں.
جى ہاں ازدواجى مشكلات كے آخرى حل كے ليے طلاق اور عليحدگى كى سوچ ہى ہے، جس طرح بيمارى كا آخرى علاج داغ لگانا ہے، اسى طرح يہاں بھى، ليكن داغ لگا كر علاج كرنا ہلاكت يا لاعلاجى سے بہتر ہے.
سارى زندگى گزارنے كے بعد اور كوشش و بسيار كے بعد بھى جس كى حالت نہ بدلے تو اس كى حالت كب بدلےگى!! اس ليے سب سے پہلے تو آپ اللہ سبحانہ و تعالى پر توكل كريں كہ آپ كوئى فيصلہ كريں اور دعا كريں كہ اللہ اس معاملہ كو بہتر طريقہ سے حل كر دے.
ہم تو آپ كو نصيحت ہى كر سكتے ہيں كہ آپ صبر و تحمل سے كام ليں اس كا بہت زيادہ اجروثواب ہے،، اور ہم جس چيز كے مالك ہيں وہ ضرور آپ كے ليے كريں گے كہ اللہ سے دعا كرتے ہيں آپ كے معاملہ كو آسان كرے اور آپ كى پريشانى ختم كرے.
واللہ اعلم .