"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
برائے مہربانى آپ مجھے اسلامى سياحت كے متعلق اہم اور تفصيلى معلومات فراہم كريں، يا يہ كہ اسلام ميں سياحت كسے كہتے ہيں ؟
يا پھر اسلامى سياحت كے اصول و ضوابط كيا ہيں، اور اسلامى سياحت كس طرح بنائى جا سكتى ہے ؟
يا يہ كہ ہمارا ملك كس طرح اسلامى سياحت ملك بن سكتا ہے، يا اسلامى سياحت كے منصوبہ جاتا كيا ہيں ؟
اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.
الحمد للہ.
سياحت كے كئى ايك لغوى معانى بيان كيے گئے ہيں، ليكن آج كل كى مشہور اصطلاح ميں سياحت اس ميں سے كچھ معانى پر مقتصر كر دى گئى ہے، تو اس طرح سير و تفريح، يا كچھ تلاش كرنے اور سرچ كرنے، كى غرض سے مختلف علاقوں ميں گھومنے پھرنے وغيرہ پر سياحت پر دلالت كرتے ہيں، نہ كہ كمائى اور ملازمت رہائش كى بنا پر علاقوں اور ملكوں ميں گھومنے پر.
ديكھيں: معجم الوسيط ( 469 ).
شريعت ا سلاميہ كى نظر ميں سياحت پر بات كرنے سے قبل درج ذيل تقسيم كرنا ضرورى ہے:
اول:
اسلام ميں سياحت كا مفہوم:
اسلام اس ليے آيا كہ بشرى ناقص عقل كے بہت سارے غلط مفاہيم كو تبديل كرے،اور انہيں اعلى اقدار اور اخلاق فاضلہ اور افضل امور كے ساتھ مربوط كرے، بعض پہلى امتوں ميں سياحت كا مفہوم نفس كو تكليف و اذيت دينے،اوراسے زمين ميں جبرا سفر كرنے سے مرتبط، اور بطور سزا اسے تھكانے، دنيا سے بے رغبتى كرنا سياحت سمجھا جاتا تھا، تو دين اسلام نے كر اس منفى اور سلبى مفہوم كو باطل كيا، جو كہ سياحت كے برعكس ہے.
ابن ہانئ امام احمد بن حنبل سے بيان كرتے ہيں كہ ايك شخص نے احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا كہ:
كيا آپ كو سياحت كرنے والا شخص زيادہ پسند ہے، يا كہ علاقے ميں مقيم شخص ؟
تو احمد بن حنبل رحمہ اللہ كا جواب تھا:
” اسلام كے اندر كسى چيز ميں سياحت نہيں، اور نہ ہى يہ انبياء اور صالحين كا عمل ہے ”
ديكھيں: تلبيس ابليس ( 340 ).
امام احمد رحمہ اللہ كى اسلام كلام پر ابن رجب حنبلى رحمہ اللہ تعليق كرتے ہوئے كہتے ہيں:
اس طريقہ كى سياحت ان گروہوں نے كى جنہيں بغير علم كے اجتھاد اور عبادت كى طرف منسوب كيا جاتا ہے، اور ان ميں ايسے بھى شامل ہيں جب انہيں ا سكا علم ہوا تو انہوں نے اس سے رجوع كر ليا ”
ديكھيں: فتح البارى ابن رجب ( 1 / 56 ).
چنانچہ اسلام آيا تا كہ سياحت كے مفہوم اونچا كرے، اور اسے عظيم مقاصد اور شريف غرض و غايت اور مقاصد كے ساتھ مربوط كرے، جن ميں سے چند ايك يہ ہے:
1 – اسلام نے سياحت كو عبادت كے ساتھ مربوط كرتے ہوئے اركان اسلام ميں سے ايك ركن ( حج ) كى ادائيگى كے ليے سفر ( يا سياحت ) كرنا واجب كيا، حج كا سفر معلوم مہينوں ميں كيا جاتا ہے، اور عمرہ كى ادائيگى كے ليے سارا سال ہى سفر كرنا مشروع كيا.
اور جب ايك شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آ كر سياحت ( قديم مفہوم جس ميں رہبانيت يا صرف نفس كوت لكيف دينے كے ليے سفر كيا جاتا تھا ) كى اجازت طلب كرتا ہے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سياحت سے بھى اعلى اور قيمتى مقصد كى طرف راہنمائى كرتے ہوئے فرمايا:
يقينا ميرى امت كى سياحت جھاد فى سبيل اللہ ہے ”
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2486 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے حسن قرار ديا ہے، اور عراقى نے تخريج احياء علوم الدين ( 2641 ) اس كى سند كو جيد كہا ہے.
تو ذرا غور كريں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مشروع اور مندوب سياحت كو كس طرح ايك عظيم غرض اور اعلى ہدف اور قيمتى مقصد سے مربوط كيا.
2 – اسى طرح دين اسلامى كے مفہوم ميں سياحت علم و معرفت كے ساتھ ملى ہوئى ہے، اسلام كے ابتدائى دور ميں طلب علم اور علم پھيلانے كى غرض سے بڑے عظيم اور قوى قسم كے سياحتى سفر ہوئے، حتى كہ خطيب بغدادى رحمہ اللہ نے اپنى مشہور كتاب ” الرحلۃ فى طلب الحديث ” حديث كے حصول كے ليے سفر جيسى عظيم كتاب لكھى، جس ميں ايك حديث كے ليے سفر كرنے والوں كے سفر جمع كيے ہيں !
اور اسى وجہ سے بعض تابعين حضرات نے درج ذيل فرمان بارى تعالى كے متعلق كہا ہے:
فرمان بارى تعالى ہے:
وہ ايسے ہيں جو توبہ كرنے والے، عبادت كرنے والے، حمد و تعريف كرنے والے، روزہ ركھنے، ، ( يا راہ حق ميں سفر كرنے والے ) ركوع كرنے والے، سجدہ كرنے والے، نيك باتوں كى تعليم دينے والے، اور اللہ كى حدود كا خيال ركھنے والے ہيں، اور ايسے مومنوں كو آپ خوشخبرى سنا ديجئے التوبۃ ( 112 ).
عكرمہ كہتے ہيں: ” السائحون ” يہ طالب علم ہيں.
اسے ابن ماجہ نے اپنى تفسير ( 7 / 429 ) ميں روايت كيا ہے، اور فتح القدير ( 2 / 408 ) بھى ديكھيں.
اگرچہ اس كى صحيح تفسير وہى ہے جس پر جمہور سلف ہيں كہ اس سے مراد روزہ دار ہيں.
3 – اسلام ميں سياحت كے مقاصد ميں عبرت اوروعظ و نصيحت شامل ہيں، قرآن مجيد ميں كئى ايك مقامات پر زمين ميں گھومنے پھرنے كا حكم ديا گيا ہے:
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
كہہ ديجئے كہ زمين ميں چلو پھر اور سير كرو، پھر ديكھو كہ جھٹلانے والوں كا انجام كيا ہوا الانعام ( 11 ).
اور ايك دوسرے مقام پر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان كچھ اس طرح ہے:
كہہ ديجئے زمين ميں چلو پھرو پھر ديكھو كہ مجرموں كا انجام كيا ہوا النمل ( 69 ).
قاسمى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” يہ وہ لوگ ہيں جو علاقوں اور گھروں ميں آثار ديكھنے كے ليے جاتے ہيں، تا كہ اس سے وعظ و عبرت اور دوسرے فوائد حاصل كيے جائيں.
ديكھيں: محاسن التاويل ( 16 / 225 ).
4 – اسلام ميں سياحت كا سب سے عظيم مقصد دعوت الى اللہ، اور اس نور و روشنى كى تبليغ ہے جو نبى كريم محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر نازل ہوئى، اور رسولوں اور انبياء اور ان كے بعد صحابہ كرام كا بھى يہى عمل تھا، ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى صحابہ كرام روئے زمين پر پھيل گئے اور لوگوں كو خير و بھلائى كى تعليم دى، اور انہيں كلمہ حق كى دعوت دى، ہم اميد كرتے ہيں كہ آج كى سياحت بھى اسى عظيم مقصد كو اپنے اندر سموئے گى، جو بہت ہى شريف غرض و غايت و ہدف ہے.
5 – آخر ميں ہم يہ كہنا چاہينگے كہ: اسلام ميں سياحت كا مفہوم يہ ہے كہ اللہ تعالى كى مخلوقات ميں غور و فكر اورتدبر، اور اس دنيا كى خوبصورتى سے تفريح حاصل كرنے كے ليے سفر كيا جائے، تا كہ وہ بشرى نفس ميں ايمانى قوت كے اضافہ اور اللہ تعالى كى وحدانيت پر ايمان كا باعث ہو، اور زندگى كے واجبات كى ادائيگى ميں ا سكا معاونت بھى كرے، كيونكہ اس كے بعد نفس كى تفريح ضرورى ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
كہہ ديجئے كہ زمين ميں چل پھر كر ديكھو تو سہى كہ كس طرح اللہ تعالى نے مخلوق كى ابتداءً پيدائش كى، پھر اللہ تعالى ہى دوسرى نئى پيدائش كريگا، اللہ تعالى ہر چيز پر قادر ہے العنكبوت ( 20 ).
دوم:
اسلام ميں مشروع سياحت كے اصول و ضوابط:
ہمارى پرحكمت شريعت اسلاميہ بہت سارے ايسے احكام لائى ہے جو سياحت كو منظم اور اس كى راہنمائى كرتے ہيں، تا كہ سياحت كے مقاصد پورے ہو سكيں، اور حد سے تجاوز كر كے ضياع كا باعث نہ بنے، تواس طرح سياحت معاشرے كے ليے شر و ضرر اور نقصان كا مصدر بن كر رہ جائے، وہ احكام درج ذيل ہيں:
1 – تين مسجدوں كے علاوہ كسى اورجگہ كى تعظيم كے قصد سے سفر كرنے كى حرمت.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” تين مسجدوں مسجد حرام، اور مسجد نبوى، اور مسجد اقصى كے علاوہ كسى اور كى جانب سفر نہ كيا جائے ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1132) صحيح مسلم حديث نمبر( 1397 )
اس حديث ميں ” دينى ” سياحت كى ترويج كى حرمت كى دليل پائى جاتى ہے، جيسا كہ تين مسجدوں كے علاوہ كسى اور جگہ كے ليے اسے نام ديتے ہيں، اور جس طرح كوئى شخص قبروں، درگارہوں، اور درباروں كى زيارت كى سياحت دعوت دے، اور خاص كر وہ دربار اور درگاہيں جن كى لوگ تعظيم كرتے ہيں، اور وہاں جا كر كئى قسم كے شرك و بدعات اور كبيرہ گناہ كے مرتكب ہوتے ہيں، اس ليے شريعت اسلاميہ ميں ان تين مساجد كے علاوہ كسى اور جگہ كى تقديس اور عظمت نہيں ہے.
ابو ہر يرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
” ميں طور پہاڑ كى جانب جانے كے ليے نكلا تو راستے ميں مجھے كعب الاحبار رضى اللہ تعالى عنہ ملے تو ميں ان كے ساتھ بيٹھ گيا…..
توانہوں نے طويل حديث بيان كى اور پھر كہنے لگے:
پھر ميں بصرہ بن ابى بصرہ غفارى سے ملا تو وہ كہنے لگے: كہاں سے آئے ہو ؟
تو ميں نے كہا طور پہاڑ سے، تو وہ كہنے لگے: اگر ميں تمہيں وہاں جانے سے پہلے مل جاتا تو آپ وہاں نہ جاتے، ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا ہے كہ:
” تين مسجدوں كے علاوہ كسى اور كى طرف سوارى تيار كر كے نہيں لے جائى جا سكتى، مسجد حرام، اور ميرى يہ مسجد، اور مسجد ايليا يا بيت المقدس ”
موطا امام مالك حديث نمبر ( 108 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 1430 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اس ليے ان تين جگہوں كے علاوہ كسى اور مقدس جگہ كا قصد لے كر سفر كرنا جائز نہيں، ا سكا يہ معنى يہ نہيں كہ مسلمانوں كے ممالك ميں مسجدوں كى زيارت كرنا ہى حرام ہے، بلكہ مسجد كى زيارت كرنا مشروع اور مستحب ہے، بلكہ صرف اس غرض سے سفر كرنا ممنوع ہے، اگر سفر سے ا سكا كوئى اور مقصد ہو، اور يہ زيارت اس كے تابع ہو كر ہوئى ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں، بلكہ نماز جمعہ اور نماز پنجگانہ كى ادائيگى كے ليے مسجد جانا فرض ہو جائيگا.
اور دوسرے اديان كى مقدس جگہوں كى زيارت كے ليے جانا اور سفر كرنا بالاولى حرام ہوگا، مثلا كوئى شخص ويٹكن كى زيارت كے جائے، يا پھر بدھ مت كے بتوں وغيرہ كى زيارت كے ليے.
2 – مسلمان شخص كا كفار ممالك كى مطلقا سياحت كرنے كى حرمت دلائل بھى آئے ہيں، كيونكہ جو قوميں ہمارے دين پر عمل نہيں كرتيں اور دين اسلام كا خيال نہيں ركھتى، اور نہ ہى ہمارے اخلاق پر عمل كرتى ہيں اس سے ميل جول ركھنے سے مسلمان شخص كے دين اور اخلاق ميں كئى قسم كى خرابياں پيدا ہوتى ہيں، اور خاص كر جب اس سفر كى علاج يا تجارت وغيرہ جيسى كوئى ضرورت بھى نہ ہو، بلكہ صرف سير و تفريح كے ليے تو اللہ تعالى نے مسلمان ملكوں ميں الحمد للہ بہت كچھ ركھا ہے، جو كفار كے ممالك كى سير و تفريح كرنے سے ہميں مستغنى كر ديتى ہے.
شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:
” كفار ممالك كى جانب سفر كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ كفار سے ميل جول، اور ان كے مابين رہنے سے عقيدہ اور اخلاق كو خطرہ ہے، ليكن اگر كوئى بہت زيادہ ضرورت پيش آ جائے، اور ان كےممالك جانے كى غرض صحيح ہو مثلا كسى ايسى مرض سے علاج كروانا جو مسلمان ممالك ميں نہيں، يا پھر ايسى تعليم جس كا مسلمان ممالك ميں حاصل كرنا ممكن نہيں، يا تجارتى سفر، تو يہ غرض صحيح ہے، اوراس كے ليے كفار ممالك كا سفر كرنا جائز ہے ليكن اس ميں بھى ايك شرط ضرورى ہے كہ: اسلامى شعائر كى حفاظت ہو، اور وہ شخص ان كے ممالك ميں جا كر اپنے دين پر عمل كر سكتا ہو، اور وہ سفر صرورت كے مطابق ہو، جيسے ہى ضرورت ختم ہو مسلمان ممالك واپس آ جائے.
ليكن سياحتى سفر تو بالكل جائز نہيں؛ اس ليے كہ مسلمان شخص كو اس كى ضرورت ہى نہيں، اور نہ ہى اس ميں كوئى ايسى مصلحت ہے جو ايسى چيز كے برابر يا اس سے بڑھ كر ہو جس ميں اس كے دين و عقيدہ كو خطرہ پيش ہو.
ديكھيں: المنتقى من قتاوى الشيخ الفوزان ( 2 ) سوال نمبر ( 221 ).
اور ہمارى اسى ويب سائٹ پر اس مسئلہ كےمتعلق تفصيلى بيان موجود ہے، آپ اس كے ليے سوال نمبر (13342 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
3 – اور اس ميں كوئى شك نہيں كہ شريعت ا سلاميہ ايسى جگہوں كى سير و سياحت كرنے سے منع كرتى اور روكتى ہے جہاں فساد و خرابياں ہوں كہ وہاں شراب نوشى اور فحاشى اور معصيت و نافرمانيوں كا ارتكاب ہوتا ہو، مثلا ساحل جہاں بےلباس ہو كر نہايا جائے، اور فحاشى كى تقريبات، اور فسق و فجور والى جگہيں، يا پھر بدعتى قسم كے تہوار منعقد كرنے كے ليے سفر كرنا، كيونكہ مسلمان شخص كو معاصى و نافرمانيوں سے دور رہنے كا حكم ہے، اس ليے نہ تو وہ خود معصيت و نافرمانى كا مرتكب ہو، اور نہ ہى وہ معصيت كا ارتكاب كرنےوالى قوم كے ساتھ بيٹھے.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كا كہنا ہے:
” سير و سياحت كى غرض سے فساد اور برائى والى جگہوں كى جانب سفر كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ اس ميں دين اور اخلاق كو خطرہ ہے؛ اس ليے كہ شريعتا سلاميہ نے شركى جانب لے جانے والے وسائل كو بھى روكا اور منع كيا ہے.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 26 / 332 ).
تو پھر اس سير و سياحت كا حكم كيا ہو گا جو معصيت و فحاشى پر ابھارے اور انسان كو ايسا كرنے پر اكسائے، اور ا سكا تعاون كرنے اور اسے قائم ركھنے كے ليے ہو؟!
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كا يہ بھى كہنا ہے:
” اگر يہ سياحت معصيت و نافرمانى كے ارتكاب ميں سہولت و آسانى پيدا كرے، اور اس كى دعوت دے تو اللہ تعالى اور يوم آخرت پر ايمان ركھنے والے مسلمان شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ اللہ كى نافرمانى اور اس كے حكم كى مخالفت ميں معاون بنے، اور پھر جو كوئى بھى كسى چيز كو اللہ تعالى كےليے چھوڑتا اور ترك كرتا ہے تواللہ تعالى اسے اس سے بھى بہتر چيز عطا فرماتا ہے.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 26 / 224 ).
3 – رہا مسئلہ پہلى قوموں كے آثار اور ا نكى جگہوں كو ديكھنا اور ا نكى زيارت كرنا تو اس كے متعلق گزارش ہے كہ:
اگر تو وہ جگہيں عذاب والى ہوں، جہاں اللہ كے ساتھ كفر كى بنا پر انہيں زمين ميں دھنسا كر ہلاك كيا گيا ہو، يا پھر شكليں مسخ كر دى گئيں ہوں، يا پھر انہيں تباہ و برباد كيا گيا ہو، تو ان جگہوں كو سياحت كا مقام بنا لينا جائز نہيں.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:
تبوك كے علاقے ( البدع ) شہر ميں آثار قديمہ اور پہاڑوں ميں كريدے ہوئے گھر پائے جاتے ہيں، بعض لوگ بيان كرتے ہيں كہ يہ شعيب عليہ السلام كى قوم كى بستى تھى، سوال يہ ہے كہ:
كيا يہ ثابت ہے كہ شعيب عليہ السلام كى قوم كى بستى يہى ہے، يا ثابت نہيں ؟
اور سير و تفريح اور اس جگہ كو ديكھنے، يا پھر عبرت و نصيحت كى غرض سے ان آثار كى زيارت كرنے كا حكم كيا ہے ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
تاريخ كى خبر ركھنے والوں كے ہاں يہ مشہور ہے كہ ” مدين ” كى بستى جن كى طرف شيعب عليہ السلام كو نبى بنا پرمبعوث كيا گيا تھا وہ جزيرہ عرب كے شمال مغرب ميں واقع ہے، جسے آج ” البدع ” اور اس كے ارد گرد كا علاقہ كہا جاتا ہے، ليكن حقيقت حال كيا ہے، ا سكا اللہ ہى كو علم ہے.
اور اگر يہ صحيح ہے تو پھر سير و تفريح كى غرض سے ديكھنے جانا جائز نہيں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جب حجر جو كہ ثموديوں كى بستى ہے وہاں سے گزرتے ہوئے فرمايا تھا:
تم ان لوگوں كى بستى ميں مت جاؤ جنہوں نے اپنى جانوں پر ظلم كيا، خدشہ ہے كہ كہيں تمہيں بھى وہى عذاب نہ پہنچ جائے جو انہيں پہنچا تھا، اگر داخل ہو ہونا چاہتے ہو تو پھر وہاں روتے ہوئے جاؤ ”
پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے چہرے پر كپڑا لپيٹ ليا، اور وہاں سے تيزى كے ساتھ گزر گئے حتى كہ اس وادى كو پار كيا ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 3200 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2980 ).
ابن قيم رحمہ اللہ غزوہ تبوك سے مستنبط شدہ فوائد اور احكام بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:
اور ان ميں يہ بھى شامل ہے كہ:
جو شخص بھى ان لوگوں كى بستى سے گزرے جن پر اللہ كا غضب نازل ہوا، اور عذاب سے دوچار كيے گئے، اسے چاہيے كہ وہ وہاں داخل مت ہو، اور نہ ہى وہاں ٹھرے، بلكہ وہ تيزى كے ساتھ وہاں سے گزر جائے، اور اپنے چہرے پر كپڑا لپيٹ كر وہاں سے نكل جائے، اور اس بستى ميں داخل ہو تو روتا ہوا اور عبرت پكڑتا ہوا داخل ہو.
اور منى اور مزدلفہ كے درميان وادى محسر ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا تيزى سے گزرنا بھى اسى ناحيہ سے ہے، كيونكہ يہ وہ جگہ ہے جہاں اللہ تعالى نے ہاتھيوں كے لشكر كو ہلاك كيا تھا ”
ديكھيں: زاد المعاد ( 3 / 560 ).
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى مندرجہ بالا حديث كى شرح كرتے ہوئے كہتے ہيں:
” اور يہ ثموديوں وغيرہ دوسرے جن كى صفات بھى يہى ہوں كو بھى شامل ہے، چاہے ان كےمتعلق سبب وارد ہوا ہے ”
ديكھيں: فتح البارى ( 6 / 360 ).
اور آپ درج ذيل كتاب كا بھى مطالعہ كريں.
مجموعۃ ابحاث كبار علماء فى الممكۃ العربيۃ السعوديۃ جلد نمبر ( 3 ) عنوان ” حكم احياء ديار ثمود ”
اور سوال نمبر (20894 ) كے جواب كا بھى مطالعہ كريں.
5 – اور بغير محرم كسى بھى عورت كا سفر كرنا بھى جائز نہيں، علماء كرام نے حج يا عمرہ كا سفر بھى محرم كے بغير حرام ہونے كا فتوى ديا ہے، تو پھر سير و سياحت كے سفر جس ميں بہت سارا تساہل اور حرام كردہ مرد و عورت كا اختلاط پايا جائے ا سكا حكم كيا ہو گا ؟
اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 3098 ) اور (45917 ) اور (4523 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
6 – رہا يہ مسئلہ كہ كفار كے ليے مسلمانوں كے ملك ميں سياحتى سفر كا انتظام كرنا: تو اس ميں اصل يہى ہے كہ ايسا كرنا جائز ہے، جب كافر سياح كو مسلمان حكومت اپنے ملك ميں داخل ہونے كى اجازت دے تو وہ كافر وہاں سے جانے تك وہ معاہد بن جائيگا، ليكن اس كافر كے ليے مسلمان ملك ميں رہتے ہوئے دين اسلام كا احترام كرنا ہوگا، اور مسلمانوں كى اخلاقيات اور ثقافت كا بھى احترام كريگا.
نہ تو وہ اپنے كفريہ دين كى دعوت پيش كر سكتا ہے، اور نہ ہى دين اسلام پر باطل ہونے كا بہتان لگا سكتا ہے، اور مسلمان ملك ميں پورا ستر ڈھانپنے والا لباس پہن كر باہر نكلے، ايسا نہيں كہ جيسا وہ اپنے ملك ميں ادھا ننگا ہو كر باہر گھومتا پھرے، اور نہ ہى وہ اپنى كافر قوم كا جاسوس بن كر جاسوسى كرے، آخر ميں يہ بھى ہے كہ كافر شخص كو حرمين يعنى مكہ اور مدينہ ميں جانے ممكن نہيں بنانا چاہيے.
سوم:
يہ كسى پر مخفى نہيں كہ آج كل كى سياحت ميں غالبا معصيت اور فحش كام،اور حرام كردہ كاموں مثلا: معروف جگہوں پر بےپردگى، اور مرد و عورت كا اختلاط، اور شراب نوشى، اور فسق و فساد كى ترويج، اور كفار سے مشابہت، اور كفار كى عادات و اخلاق كو اپنانا، حتى كہ ان كى خبيث قسم كى بيمارياں اپنانے كا بھى ارتكاب كيا جاتا ہے، چہ جائيكہ اس پر مال بھى ضائع ہونے كے ساتھ ساتھ وقت اور جھد بھى ضائع ہوتى ہے.
اور ان سب اشياء كو ايك ” سياحت ” كے خوبصورت غلاف ميں پيش كيا جاتا ہے، اس ليے ہم ہر دينى، اخلاقى اور امت كى غيرت ركھنے والے شخص كو نصيحت كرتے ہيں كہ اللہ تعالى كا خوف ركھتے ہوئے اس سے ڈرے اور فاسق قسم كى اس سياحت كى ترويج ميں معاون ثابت نہ ہو، بلكہ وہ اس كے خلاف اعلان جنگ كرے، اور جو ثقافت اس كى ترويج كر رہى ہے اس كے مخالف ہو كر لڑے، اور اسے اپنے دين، اپنى اسلامى ثقافت، اور اپنے اسلاى اخلاق پر فخر كرنا چاہيے كہ اس نے اسے ہر قسم كے فساد اور خرابيوں سے محفوظ ركھا ہے، اور اس كے بدلےميں اللہ كى مخلوق اور مسلمانوں كے ان ممالك ميں جہاں اسلامى تعليمات كا التزام كيا جاتا ہے، ايك وسيع سياحتى ميدان ديا ہے.
واللہ اعلم .