"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
سپر ماركيٹ كے مالك كے ليے بغير كسى شرعى جواز كے ملازم كى تنخواہ ميں كٹوتى كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ ايسا كرنا ظلم اور ناحق اور باطل طريقہ سے مال كھانا ہے.
اور ملازم كو يہ حق حاصل ہے كہ وہ اپنے حق كا مطالبہ كرے، اور مشروع اور جائز وسائل كے ساتھ اپنے سےظلم ختم كرنے كى كوشش كرے.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
ميں نے ايك شخص كے پاس كام كيا تو اس نے ميرى مكمل مزدورى نہ دى، بلكہ اس كے پاس كچھ رقم باقى ہے، تو كيا ميرے ليے اس كے علم كے بغير اتنى قيمت كى كوئى چيز لينا جائز ہے ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
" آپ كے ليے جائز نہيں كہ آپ مالك كے علم كے بغير اپنى باقى مانندہ مزدورى كى رقم كى قيمت كے مطابق كوئى چيز ليں، ليكن آپ كو يہ حق حاصل ہے كہ آپ مشروع اور جائز طريقوں سے اپنى باقى مانندہ مزدورى كا مطالبہ كريں، چاہے آپ كو اس كے ليے آپ كو عدالت ميں درخواست دينا پڑے " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 15 / 144 ).
دوم:
اصل يہى ہے كہ ملازمين كو جو تحفہ جات پيش كيے جاتے ہيں وہ جائز نہيں، اس كے نتيجہ ميں پيدا ہونے والى خرابياں بہت ہيں، جن كا سوال نمبر ( 82497 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے.
اور يہ ہديہ اور تحفہ جات جو سامان فروخت كرنے اور اس كى ترويج اور اسے متعارف كرانے والے، يا اسے لانےاور خريدنے والے ملازم كو ديے جاتے ہيں اس كى كئى ايك صورتيں ہيں جن ميں سے چند ايك يہ ہيں:
1 - سامان كا ريٹ كم كرنا، يا سامان كے ساتھ اضافى اور مفت اشياء فراہم كرنا، ملازم كے ليے ان اشياء سے ذاتى فائدہ حاصل كرنا جائز نہيں، بلكہ وہ دوكان كے مالك كو واپس كرنا ضرورى ہيں، كيونكہ ملازم تو اس كى جانب سے لين دين كرنے ميں وكيل ہے، اس ليے جو بھى ہديہ يا سامان كے ريٹ ميں كمى ہو گى وہ اس كے مؤكل كو ملےگى، ليكن اگر مالك اسے لينے كى اجازت دے تو پھر صحيح ہے.
2 - ملازم كو قليل سى رقم دى جانا، جسے انعام و اكرام كا نام ديا جاتا ہے، يا پھر اسے يہ كہا جائے كہ يہ تمہارے پٹرول كا خرچ يا اس كوئى اور كلام، اس انعام و اكرام كا بھى ملازم حقدار نہيں، يہ بھى انہى ہديہ جات ميں شامل ہوتے ہيں جس سے ملازمين كو روكا گيا ہے، اس كے نتيجہ ميں غالبا ملازم كے كام اور امانت ميں خلل پيدا ہوتا ہے، اس ليے وہ دوكان كے ليے بہتر اور فائدہ مند اشياء نہيں لےگا، بلكہ وہ وہاں سے سامان خريدے گا يا وہاں فروخت كريگا جہاں سے اسے ہديہ ملے، اور جو اسے انعام دے، حتى كہ فرض كريں اگر ملازم اس ممنوعہ كام جو كہ كام كى مصلحت ميں مخل ہو تو بھى اس كے ليے ہديہ قبول كرنا صحيح نہيں؛ اس ليے كہ شريعت غالب اور عام كا خيال كرتى ہے، سد الذريعہ كے ليے اس سے شريعت نے منع كيا ہے.
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك كمپنى ميں كوئى شخص پرچيزر ہے، اور اس كمپنى سے اسے مقرر كردہ تنخواہ ملتى ہے، اور وہ اپنى اور ايك دوسرى كمپنى كے درميان واسطہ كا كام كرتا ہے، اور كمپنى كے ليے كچھ مشين و آلات خريدتا ہے، آلات فروخت كرنے والى كمپنى سے كميشن ليتا ہے، يہ علم ميں رہے كہ وہ يہ كميشن خود طلب نہيں كرتا، ليكن كمپنى كا مالك اس كے طلب كيے بغير خود ہى اس پرچيزر كو كميشن ديتا ہے، تو كيا يہ كميشن شرعى شمار ہو گى ؟
كميٹى كا جواب تھا:
" جب اس پرچيزر كو اپنى كمپنى سے ماہانہ تنخواہ ملتى ہے تو اپنى كمپنى كى مصلحت اور اس كے ليے آلات خريدنے كے سلسلے ميں دوسرى كمپنى كے ساتھ لين دين كرنے ميں كميشن لينا جائز نہيں؛ كيونكہ ايسا كرنے سے گمان پيدا ہوگا كہ وہ اپنى كمپنى كے ليے ريٹ ميں كوتاہى كر رہا ہے، اور جو اشياء خريد رہا ہے اس كے معيار ميں بھى كمى و كوتاہى كا گمان پيدا ہوتا ہے " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 15 / 147 ).
سوم:
اگر ملازم يہ ہديہ قبول كرتا ہے تو اسے ان كے مالك كو واپس كرنا ہونگى، اور اگر وہ ايسا نہيں كر سكتا تو وہ جس كمپنى يا ادارہ كے سبب سے اسے ديا گيا ہے انہيں دے "
ديكھيں: الحوافز التجاريۃ التسويقيۃ تاليف خالد بن عبد اللہ المصلح صفحہ نمبر ( 120 ).
حاصل يہ ہوا كہ:
آپ كے ليے ان ہديہ جات اور انعام و اكرام كو قبول نہ كرنا متعين ہے اور اگر آپ قبول كر ليں تو آپ پر لازم ہے كہ دوكان كے مالك كے علم ميں لائيں اور اسے ديں، ليكن اگر وہ اس كى اجازت دے تو پھر آپ ركھ سكتے ہيں.
واللہ اعلم .