اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

كيا قبر والے كى پہچان كے ليے قبر پر كوئى علامت اور نشانى ركھنا جائز ہے ؟

24-09-2021

سوال 8991

ہمارے ہاں عادت ہے كہ قبر پر ميت كے سرہانے اور پاؤں والى طرف، يا بعض اوقات صرف سرہانے پتھر يا سيمنٹ كى كوئى چيز يا كوئى لكڑى وغيرہ ركھى جاتى ہے، اس ميں اسلامى حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

شريعت مطہرہ نے قبروں پر كچھ بنانے كو حرام قرار ديا ہے، اور قبر پر بنى ہوئى عمارت وغيرہ كو منہدم كرنے كا حكم ديا ہے، اور ميت كے اہل و عيال اور دوست و احباب كے ليے قبر پر كوئى نشانى اور علامت ركھنا جائز قرار ديا، ليكن يہ علامت شريعت مطہرہ كى ممنوع كردہ اشياء مثلا عمارت يا كوئى اور چيز نہ ہو.

1 - قبروں پر عمارت تعمير كرنے كى حرمت كى دليل يہ ہے:

جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قبر كو پختہ كرنے اور اس پر بيٹھنے اور اس پر كچھ تعمير كرنے سے منع فرمايا.

صحيح مسلم شريف حديث نمبر ( 670 ).

التجصيص: چونا گچ كے ساتھ پلستر كرنے كو كہتے ہيں.

امام شوكانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

قولہ: " ان يبنى عليہ" يعنى قبر پر كچھ تعميركيا جائے، اس ميں قبر پر عمارت تعمير كرنے كى حرمت پائى جاتى ہے.

امام شافعى رحمہ اللہ تعالى اور ان كے اصحاب نے تفصيل كے ساتھ بيان كرتے ہوئے كہا ہے:

اگر تو قبر پر تعمير كردہ اشياء بانى كى ملكيت ہو تو مكروہ ہے، اور اگر قبرستان ميں ہو تو پھر حرام.

ليكن اس تفصيل كى كوئى دليل نہيں.

حالانكہ امام شافعى رحمہ اللہ تعالى كا قول تو يہ ہے كہ:

" ميں نے مكہ ميں آئمہ كرام كو ديكھا كہ وہ قبر پر تعمير كردہ كو منہدم كرنے كا حكم ديتے تھے" .

اور اس انہدام پر مندرجہ بالا حديث بھى دلالت كرتى ہے.

ديكھيں: نيل الاوطار ( 4 / 132 ) اور الام للشافعى ( 1 / 277 ).

اور على رضى اللہ تعالى عنہ كى جس حديث كى طرف اشارہ كيا گيا ہے وہ مندرجہ ذيل فقرہ ميں آرہى ہے:

اور قبروں پر بنى ہوئى عمارت وغيرہ كے انہدام كا حكم تو سنت نبويہ صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے.

ابو ھياج اسدى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں كہ مجھے على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ نے كہا:

" كيا ميں تجھے اس مہم كے ليے روانہ نہ كروں جس كے ليے مجھے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھيجا تھا:

" كہ تو ہر مجسمے تو توڑ دے، اور ہر اونچى قبر كو برابر كر دے"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 969 ).

امام شوكانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

قولہ: " ہر اونچى قبر كو برابر كر دو"

اس ميں يہ بيان كيا گيا ہے كہ: سنت يہ ہے كہ كسى افضل يا غير افضل شخص كى قبر كى اونچائى ميں كوئى فرق نہيں ہونا چاہئے، اور اسے زيادہ اونچا نہيں كرنا چاہيے.

اور ظاہر يہ ہے كہ: اجازت سے زيادہ قبر كو اونچا كرنا حرام ہے، امام احمد اور امام شافعى اور امام مالك كے اصحاب كى ايك جماعت نے اس كى صراحت بيان كي ہے.

اور يہ كہنا كہ يہ ممنوع نہيں ہے، كيونكہ سلف اور خلف سے ثابت ہے اور اس پر كسى كا انكار نہيں، جيسا كہ امام يحيى اور مھدى نے" الغيث" ميں كہا ہے، يہ قول صحيح نہيں، كيونكہ اس ميں انتہائى چيز تو يہ ہے كہ انہوں نے اس پرسكوت اختيار كيا ہے، اور جب ظنى امور ہوں تو اس ميں سكوت دليل نہيں بن سكتا، اور قبروں كو اونچا كرنے كى حرمت كو ختم كرنا ظنى امور ميں سے ہے.

اور قبروں پر قبے، اور مزار وغيرہ تعمير كرنا تو بالاولى اس حديث ميں شامل ہوتا ہے، جس حديث ميں قبر كو اونچى كرنے سے منع كيا گيا ہے، اور پھر ايسا كرنے ميں قبروں كو مساجد اور سجدہ گاہ بنانا بھى ہے، حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا كرنے والے پر لعنت فرمائى ہے.

ديكھيں: نيل اولاطار ( 4 / 130 ).

ليكن كسى جائز اور مباح چيز كے ساتھ قبر كى نشانى اور علامت ركھنا جائز ہے، سنت نبويہ صلى اللہ عليہ وسلم ميں اس كا بيان ملتا ہے:

كثير بن زيد مدنى مطلب رحمہ اللہ تعالى سے بيان كرتے ہيں كہ جب عثمان بن مظعون رضى اللہ تعالى عنہ فوت ہوئے اور انہيں دفن كيا جا چكا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك شخص كو پتھر لانے كا حكم ديا تو وہ شخص اسے نہ اٹھا سكا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم خود اٹھے اور اپنے بازؤں سے آستانيں اوپر كيں - كثير رحمہ اللہ تعالى بيان كرتے ہيں كہ: مطلب نے كہا: جس نے مجھے يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے بتايا وہ كہتا ہے: - جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بازؤں سے كپڑا دور كيا تو گويا كہ ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بازؤں كى سفيدى ديكھ رہا ہوں، اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے وہ پتھر اٹھا كر ان كے سر كے پاس ركھ ديا، اور فرمانے لگے:

" اس سے ميں اپنے بھائى كى قبر پہچان ليا كرونگا، اور اپنے خاندان ميں سے مرنے والوں كو اس كے قريب دفن كر سكوں گا".

سنن ابو داود حديث نمبر ( 3206 ) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى نے التلخيص الحبير ( 2 / 133 ) ميں اس حديث كى سند كو حسن قرار ديا ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

پتھر يا لكڑى كے ساتھ قبر كى علامت اور نشانى ركھنے ميں كوئى حرج نہيں.

امام احمد رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: قبر كى پہچان كے ليے علامت اور نشانى ركھنے ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى عثمان بن مظعون رضى اللہ تعالى عنہ كى قبر كى علامت اور نشانى ركھى تھى.

ديكھيں: المغنى لابن قدامۃ المقدسى ( 2 / 191 ).

واللہ اعلم .

جنازہ اور قبروں کے احکام
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔