"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
سورۃ فاتحہ پڑھنے اور اس كا ثواب ميت كو دينے كا حكم كيا ہے ؟
الحمد للہ.
سورۃ فاتحہ يا اس كے علاوہ قرآن مجيد كا ثواب فوت شدگان كو دينے كى كوئى دليل نہيں ملتى لھذا اسے ترك كرنا واجب ہے؛ كيونكہ يہ نہ تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے منقول ہے، اور نہ ہى ان كے صحابہ كرام رضى اللہ تعالى عنہم سے، جس سے اس كى دليل لى جا سكے.
ليكن مسلمان فوت شدگان كے ليے دعا كرنا اور ان كى جانب سے صدقہ و خيرات كرتے ہوئے فقراء و مساكين كے ساتھ احسان كرنا مشروع ہے، اس كے ساتھ بندہ اللہ تعالى كا قرب حاصل كرے اور اللہ تعالى سے سوال كرے كہ وہ اس صدقہ و خيرات كا اجروثواب اس كے والد يا والدہ يا كسى اور فوت شدہ يا زندہ كو دے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس كا عمل منقطع ہو جاتا ہے، ليكن تين قسم كے عمل جارى رہتے ہيں: صدقہ جاريہ، يا نفع مند علم سے، يا نيك اور صالح اور اولاد اس كے ليے دعا كرتا رہے"
اور اس ليے بھى كہ حديث ميں يہ بھى ثابت ہے كہ ايك شخص نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرى والدہ فوت ہو گئى اور اس نے كچھ وصيت نہيں كى، ميرا خيال ہے كہ اگر وہ كلام كرتى تو صدقہ ضرور كرتى، اگر ميں اس كى جانب سے صدقہ كروں تو كيا اسے اجر ملےگا؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جى ہاں"
صحيح بخارى و صحيح مسلم.
اور اسى طرح ميت كى جانب سے حج اور عمرہ كرنا اور اس كا قرض ادا كرنا يہ سب كچھ اسے فائدہ ديتے ہيں، جيسا كہ شرعى دلائل سے ثابت ہے، ليكن اگر سائل كا مقصد يہ ہے كہ وہ ميت كے اہل و عيال كے ساتھ احسان اور پيسوں اور جانور وغيرہ ذبح كركے صدقہ كرنا چاہتا ہے تو اگر وہ فقراء ہيں تو اس ميں كوئى حرج نہيں.