"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ميں نے بيوى سے جماع كيا تو مجھے يہ علم نہ تھا فجر طلوع ہو چكى ہے، اور فجر كى اذان بھى ہو چكى ہے، يہ ميرے علم ميں بالكل نہ تھا مجھے توقع تھى پانچ بجكر كچھ منٹ پر اذان ہونے والى ہے، ليكن بعد ميں واضح ہوا كہ اذان تو پونے پانچ بجے ہوتى ہے، اب اس كا حل كيا ہے، آيا ميرے اور بيوى كے ذمہ كفارہ لازم آتا ہے، كيونكہ ہم دونوں كى اس كى رغبت تھى، اور ہم چوبيس گھنٹے قبل ہى سفر سے واپس آئے تھے، جس كى بنا پر ہميں نمازوں كےاوقات كا علم نہ تھا، جب ہم پہنچے تودوسرے دن صبح رمضان كا اعلان ہو گيا ؟
الحمد للہ.
اگر تو معاملہ ايسے ہى جيسا آپ نے بيان كيا ہے تو آپ دونوں پر كوئى چيز لازم نہيں آتى، كيونكہ جس نے روزہ توڑنے والا كوئى عمل اس گمان سے كيا كہ ابھى فجر طلوع نہيں ہوئى، اور پھر يہ واضح ہوا كہ فجر طلوع ہو چكى تھى، تو علماء كرام كے اقوال ميں راجح يہى ہے كہ اس پر قضاء نہيں ہے، چاہے روزہ توڑنے والا عمل كھانا پينا ہو يا جماع.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
ميں يہ واضح كرنا چاہتا ہوں كہ كھانے پينے، اور جماع وغيرہ جو روزہ توڑ ديتى ہيں اس سے انسان كا روزہ تين شروط سے ٹوٹتا ہے:
1 - اسے علم ہو، اور اگر اسے علم نہ ہو كہ يہ چيز روزہ توڑ ديتى ہے تو اس كا روزہ نہيں ٹوٹتا.
اس ليے كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور تم سے بھول چوك ميں جو كچھ ہو جائے اس ميں تم پر كوئى گناہ نہيں، بلكہ گناہ اس ميں ہے جو تمہارے دل كے ارادہ سے ہو، اور اللہ تعالى بخشنے والا رحم كرنے والا ہے الاحزاب ( 5 ).
اور اس ليے بھى كہ ارشاد ربانى ہے:
اے ہمارے رب اگر ہم بھول جائيں يا ہم سے غلطى ہو جائے تو ہمارا مؤاخذہ نہ كرنا.
تو اللہ تعالى نے فرمايا: ميں نے ايسا كر ديا.
اور اس ليے بھى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ميرى امت سے بھول چوك اور غلطى اور جس پر انہيں مجبور كر ديا جائے معاف كر دى گئى ہے "
اور جاہل شخص مخطى يعنى غلطى كرنے والا ہے، اگر اسے علم ہوتا وہ ايسا نہ كرتا، تو اگر وہ جہالت كى بنا پر روزہ توڑنے والى كسى چي زكا مرتكب ہو اس پر كچھ نہيں، اور ا سكا روزہ صحيح اور مكمل ہے، چاہے وہ وقت سے جاہل ہو يا حكم سے جاہل.
حكم سے جاہل ہونے كى مثال يہ ہے كہ:
روزہ توڑنے والى كسى چيز كا ارتكاب اس خيال سے كر لے كہ اس سے روزہ نہيں ٹوٹتا، مثلا اگر كوئى اس خيال سے سنگى لگوا لے كہ اس سے روزہ نہيں ٹوٹتا، تو ہم يہ كہينگے: آپ كا روزہ صحيح ہے، اور آپ پر كچھ گناہ نہيں.
وقت سے جاہل ہونے كى مثال يہ ہے:
ا سكا خيال ہو كہ ابھى فجر طلوع نہيں ہوئى، اور وہ كھا پى لے تو اس كا روزہ صحيح ہے.
2 - اسے ياد ہو، اگر بھول كر ہو تو اس سے روزہ نہيں ٹوٹتا.
3 - اس كے اپنےاختيار سے ہو، اور اگر اس كے اختيار كے بغير ہو تو روزہ نہيں ٹوٹےگا " انتہى.
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 19 / 280 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے يہ سوال بھى كيا گيا:
ايك شخص كى نئى نئى شادى ہوئى اور وہ بيوى كے پاس رات كے آخرى حصہ ميں اس خيال سے گيا كہ ابھى رات باقى ہے ليكن اچانك اس وقت نماز اقامت ہونے لگى، اس كے متعلق آپ كيا كہتے ہيں، آيا اس پر كچھ ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
نہيں، اس پر كچھ لازم نہيں، نہ تو گناہ ہے، اور نہ ہى كفارہ، اور نہ قضاء كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
تو اب ان ( بيويوں ) كے ساتھ مباشرت كرو، اور رات كے سياہ دھاگے سے دن كا سفيد دھاگہ ظاہر ہونے تك كھاتے پيتے رہو البقرۃ ( 187 ).
توتينوں سب كے سب برابر ہيں: بيوى سے ہم بسترى كرنا، اور كھانا پينا يہ برابر ہيں، اور ان ميں فرق كرنے كى كوئى دليل نہيں، يہ سب كے سب روزے كے ممنوعہ كام ميں شامل ہوتے، اور اگر جہالت يا بھول اور غلطى كى بنا پر ان ميں سے كوئى كر ليا جائے تو اس پر كچھ لازم نہيں آتا " انتہى.
ماخوذ از: اللقاء الشہرى ( ماہانہ ملاقات ).
اس سے يہ ظاہر ہوا كہ آپ دونوں پر كچھ بھى لازم نہيں، نہ تو كفارہ لازم آتا ہے، اور نہ ہى قضاء، يہ اس وقت ہے كہ اگر آپ نے اس دن روزہ ركھا تھا.
ليكن اگر آپ نے اس دن كا روزہ اس خيال سے نہيں ركھا كہ جماع سے روزہ باطل ہو گيا ہے، تو پھر آپ كے ذمہ صرف اس روزے كى قضاء ہے.
واللہ اعلم .