اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

لڑكى كے ولى نے بار بار رشتہ آنے پر انكار كر ديا تو كيا لڑكى خود ہى اپنا نكاح كر لے

16-05-2010

سوال 95405

ميں ٹيچر ہوں اور ميرى عمر اكتيس برس ہے، ميں ( 1996 ) سے ليكر ( 1997 ) كے آخر تك محكمہ تربيت و تعليم ميں ملازم رہى ہوں، ميرے ليے ميرے سكول كے ايك ساتھى نے رشتہ طلب كيا تو ميں نے اسے انتظار كرنے كا كہا كہ پہلے ميرى بڑى بہن كى شادى ہونے دو، چنانچہ ( 2000 ) ميں بڑى بہن كى شادى كے بعد اس مدرس نے گھر آ كر ميرا رشتہ طلب كيا ليكن ميرے والد نے اس رشتہ سے انكار كر ديا حالانكہ والدہ راضى تھى.
والد صاحب نے انكار كرنے كى دليل يہ دى كہ اس نے تو ابھى ايم اے اور پى ايچ ڈى كرنى ہے، اور احتمال ہے كہ يونيورسٹى ميں اسے پڑھانا بھى پڑے، اسى طرح كئى ايك اور بھى رشتے آئے تو ان سے بھى انكار كر ديا، سبب يہ تھا كہ يونيورسٹى ميں ملازمت كے بعد اس سے بھى بہتر رشتہ آئيگا ( جن رشتوں كا انكار كيا گيا اس ميں ايك انجينئر كا بھى رشتہ آيا تھا ) اور ( 2002 ) ميں مجھے يونيورسٹى ميں بطور استاد متعين كر ديا گيا، اور بھى كئى ايك رشتے آئے، ليكن والد صاحب نے ان سے كئى اسباب كى بنا پر انكار كر ديا. جو رشتہ بھى آتا اسے يہ كہہ كر انكار كر ديا گيا كہ وہ تو پڑھائى ميں مشغول ہے... جس ميں ايك ڈاكٹر كا بھى رشتہ آيا تھا اس كا رشتہ اس ليے رد كيا گيا كہ وہ ميرى نوكرى اور مرتبہ كا لالچى تھا، جس مدرس اور ٹيچر كا سب سے پہلے رشتہ آيا تھا اس نے دوبارہ رشتہ لينے كى كوشش كى اور ميرى مكمل اور واضح موافقت كے اعلان كے باوجود اس رشتہ سے انكار كر ديا گيا اور والد نے دليل يہ دى كہ تمہارا پيشہ مختلف ہے ( وہ مدرس ہے اور ميں يونيورسٹى ميں ليكچرار ).
باوجود اس كے كہ وہ علمى طور پر ميرا ہم پلہ ہے كيونكہ وہ يونيورسٹى كى تعليم بھى اسى شعبہ ميں مكمل كريگا، اور ثقافتى اور معاشرتى طور پر بھى وہ ميرے مناسب ہے، اور اسى طرح مالى حالت بھى اچھى ہے، اور اخلاقى اور دينى اعتبار سے بھى بہتر ہے.
( 2003 ) سے اب ( 2006 ) تك سوائے اس شخص كے ميرے ليے كسى اور كا رشتہ نہيں آيا اور وہ اب تك مجھ سے شادى كرنے پر مصر ہے، اور ميں بھى اس سے شادى كرنے كى رغبت ركھتى ہوں، ميرے والد صاحب نے مجھے بتايا ہے كہ تمہارا مدرس سے شادى كرنے سے غير شادى شدہ رہنا ہى افضل ہے، اور دليل يہ دى كہ ميرى ملازمت پكى ہے، اور پھر آمدنى بھى بہت زيادہ ہے ميں شادى كى محتاج نہيں.
اور اس كے نزديك يہ چيز حقيقت پر مبنى ہے، اور يہ چيز ميرے ليے نفسياتى ضرر اور پريشانى كا باعث ہوگا، كيونكہ ميرے رائے اور لالچ ملازمت ميں نہيں بلكہ ميں تو ايك خاندان اور گھر بنانا چاہتى ہوں.
ميرا سوال يہ ہے كہ: كيا مجھے حق حاصل ہے كہ ميں ولى كے علم كے بغير ہى شادى كر لوں ؟ اور كيا يہ رشتہ ميرے ليے كفؤ شمار نہيں ہوتا، برائے مہربانى اس سلسلہ ميں مجھے تفصيل سے معلومات عنائت كريں، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ولى كے بغير نكاح نہيں ہوتا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2085 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1101 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1881 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور ايك حديث ميں اس طرح وارد ہے:

عمران اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ولى اور دو عادل گواہوں كے بغير نكاح نہيں ہوتا "

اسے امام بيہقى نے روايت كيا ہے اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 7557 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.

اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس عورت نے بھى ولى كى اجازت كے بغير اپنا نكاح خود كيا تو اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے، اگر اس سے دخول كر ليا تو اس كى شرمگاہ حلال كرنے كى بنا پر اسے مہر دينا ہوگا، اور اگر اختلاف كريں تو جس كا ولى نہ ہو اس كا حاكم ولى ہے "

مسند احمد حديث نمبر ( 24417 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2083 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1102 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 2709 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

عورت كا ولى اس كا باپ ہے پھر دادا اوپر تك، پھر عورت كا بيٹا اور پوتا نيچے تك ( اس صورت ميں جب ا سكا بيٹا ہو ) پھر اس كا سگا بھائى، پھر اس كا باپ كى جانب سے بھائى، پھر ان كى اولاد چاہے نيچے تك، پھر چچا، پھر ان كى اولاد چاہے نيچے تك، پھر باپ كى جانب سے چچا اور پھر حكمران "

ديكھيں: المغنى ( 9 / 355 ).

ليكن اگر ولى نے كفؤ اور مناسب رشتہ كو بار بار ٹھكرا ديا اور انكار كر ديا تو وہ اپنى ولايت ميں موجود عورت كو شادى سے روكنے والا اور عاضل كہلائيگا، اور اس طرح اس كى ولايت ساقط ہو جائيگى اور منتقل ہو كر اس كے بعد والے عصبہ مرد ولى كو حاصل ہو جائيگى.

دوم:

معتبر كفؤ دينى كفؤ ہے اس ميں عربى اور عجمى كا فرق نہيں، اور نہ ہى سرخ اور سفيد ميں صرف فرق ہے تو تقوى كے ساتھ، اور بعض فقھاء نے كفؤ ميں اور بھى شروط لگائى ہيں مثلا نسب وغيرہ، اور آپ كے ليے آنے والے رشتہ كا مدرس ہونا اور آپ كا يونيورسٹى ميں ليكچرار ہونے كا معنى نہيں كہ وہ آپ كے ليے كفؤ نہيں ہے، جب وہ دين اور اخلاق والا اور مالى طور پر بھى مستحكم ہے جيسا كہ آپ نے بيان كيا ہے، تو وہ آپ كا كفؤ ہے.

سوم:

ہمارى رائے تو يہى ہے كہ آپ اپنى والد كو دوبارہ نصيحت كريں، اور اس سلسلہ ميں آپ اس شخص كو بطور واسطہ لائيں جس كى بات وہ سنتا اور مانتا ہو، يا اس كا كوئى دوست، اگر تو وہ اس شخص كے ساتھ آپ كى شادى كر دے تو يہى چاہيے وگرنہ آپ اپنے معاملہ كو اس كے بعد والے ولى كے سامنے پيش كريں اور اس ميں ترتيب كا خيال كريں، اگر وہ بھى آپ كى شادى سے انكار كر دے، يا پھر آپ كے وليوں كے مابين جھگڑا ہو جائے تو آپ اپنا معاملہ قاضى كے پاس لے جائيں، اور وہ آپ كى شادى كا معاملہ طے كريگا.

چہارم:

جو كچھ يہ ولى اور اس طرح كر رہا ہے وہ تو عجب العجاب ميں سے ہے وہ اپنى بيٹيوں كو ايك تجارتى سامان ميں تبديل كر كے اسے پيش كرتے ہيں جو زيادہ مال دے، يا پھر اس سے شادى كرتے ہيں جو زيادہ مالدار ہو، پھر اس سے بھى زيادہ تعجب تو اس پر ہے كہ لڑكى كو شادى كى ضرورت نہيں!!

يہ مسكين اس ضرورت كو كيا سمجھتا ہے، كيا اسے علم نہيں كہ نفس كو سكون كى ضرورت ہوتى ہے، اور وہ محبت و مودت چاہتا ہے، اور يہ چيز ان طبعى ضروريات ميں شامل ہوتى ہے جو اللہ عزوجل نے نفوس ميں طبعى طور پر بالغ حكمت كى بنا پر پيدا كر ركھى ہے.

اس ليے عورت كے ولى كو اللہ كا تقوى اور ڈر اختيار كرنا چاہيے، اور اسے علم ہونا چاہيے كہ اس كا اپنى بيٹى يا بہن كو كفؤ رشتہ جس پر وہ راضى ہے شادى كرنے سے روكنا اور منع كرنا ظلم و زيادتى شمار ہوتا ہے، جس سے اس كا فاسق ہونا واجب ہو كر اس كى عدالت كو ساقط كر ديتا ہے اور اس كى گواہى قبول نہيں ہو گى.

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب ولى عورت كو كسى ايسے شخص سے شادى كرنے سے منع كر دے جو دين اور اخلاق ميں اس كا كفؤ ہو تو ولايت اس كے بعد والے عصبہ مرد ولى ميں منتقل ہو جائيگى، اور اگر وہ سب اس كى شادى كرنے سے انكار كريں جيسا كہ غالب ميں ہے تو يہ ولايت شرعى حاكم ميں منتقل ہو جائيگى، اور شرعى حاكم اس عورت كى شادى كريگا.

اور اگر اس تك معاملہ اور مقدمہ پہنچتا ہے اور اسے علم ہو جائے كہ اس كے اولياء نے شادى كرنے سے منع كر ديا ہے تو اس پر اس كى شادى كرنا واجب ہے، كيونكہ جب خاص ولايت حاصل نہ ہو تو حاكم كو عام ولايت حاصل ہے.

فقھاء رحمہ اللہ نے بيان كيا ہے كہ جب ولى آنے والے رشتہ كو بار بار رد كر دے اور وہ رشتہ كفؤ بھى ہو تو اس طرح وہ فاسق بن جائيگا، اور اس كى عدالت اور ولايت ساقط ہو جائيگى، بلكہ امام احمد كے مسلك ميں مشہور يہ ہے كہ اس كى امامت بھى ساقط ہو جائيگى، اس ليے وہ مسلمانوں كو نماز بھى نہيں پڑھا سكتا، اور يہ معاملہ بہت خطرناك ہے.

جيسا كہ ہم اوپر اشارہ كر چكے ہيں كہ بعض لوگ اپنى ولايت ميں موجود عورت كا مناسب اور كفؤ رشتہ آنے پر رد كر ديتے ہيں، ليكن لڑكى قاضى كے پاس آ كر شادى كا مطالبہ كرنے سے شرماتى رہتى ہے، يہ فى الواقع اور حقيقت ہے، ليكن اس لڑكى كو مصلحت اور خرابى ميں موازنہ كرنا چاہيے كہ كس چيز ميں زيادہ خرابى پائى جاتى ہے:

كہ وہ عورت شادى كے بغير رہے اور اس كا ولى اس پر كنٹرول كرے اور اپنى مرضى اور خواہش و مزاج كے مطابق حكم چلائے اگر وہ بڑى ہو جائے اور نكاح كرنا چاہے تو اس كى شادى كر دے يا پھر وہ قاضى كے پاس جا كر شادى كا مطالبہ كرے حالانكہ يہ اس كا شرعى حق بھى ہے ؟

بلاشك دوسرا بدل پہلے سے بہتر ہے، وہ يہ كہ لڑكى قاضى كے پاس جا كر شادى كا مطالبہ كرے كيونكہ يہ اس كا حق ہے؛ اور اس ليے بھى كہ ا سكا قاضى كے پاس جانا اور قاضى كا اس كى شادى كر دينے ميں دوسرے كى بھى خير اور بھلائى اور مصلحت پائى جاتى ہے.

كيونكہ اس كے علاوہ ہو سكتا ہے دوسرى عورت بھى اسى طرح قاضى كے پاس آ جائے جيسے وہ آئى ہے، اور اس ليے بھى اس كا قاضى كے پاس آنے ميں اس طرح كے لوگوں كے ليے ڈر اور روكنے كا بھى باعث ہے جو اپنى ولايت ميں موجود عورتوں پر ظلم كرتے ہوئے ان كى مناسب رشتہ آنے پر شادى نہيں كرتے يعنى اس ميں تين مصلحتيں پائى جاتى ہے:

پہلى مصلحت:

اس عورت كے ليے ہے جو يہ مقدمہ قاضى كے پاس لے جائے تا كہ وہ شادى كے بغير نہ رہے.

اور دوسرى مصلحت:اس كے علاوہ دوسرى عورت كے ليے دروازہ كھلے گا جو اسى انتظار ميں ہے كہ كوئى مقدمہ پيش كرے اور ہم بھى جائيں.

اور تيسرى مصلحت: ان اولياء كو روكا جاسكےگا جو اپنى بيٹيوں يا اپنى ولايت ميں موجود عورتوں پر اپنى مرضى ٹھونستے ہيں اور جو چاہتے ہيں كرتے ہيں.

اور اس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم پر عمل كى بھى مصلحت پائى جاتى ہے كہ آپ نے فرمايا:

" جب تمہارے پاس كوئى ايسا شخص آئے جس كا دين اور اخلاق تمہيں پسند ہو تو اس كا نكاح كر دو، اگر ايسا نہيں كرو گے تو زمين ميں بہت زيادہ فتنہ و فساد ہو گا "

اور اسى طرح اس ميں خاص مصلحت پائى جاتى ہے وہ يہ كہ اس طرح ان لوگوں كى ضرورت پورى ہوگى جو دين اور اخلاق ميں كفؤ عورتوں سے رشتہ كرنا چاہتے ہيں " انتہى

ماخوذ از: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 148 ).

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو ہر قسم كى خير و بھلائى اور صلاح و كاميابى سے نوازے.

واللہ اعلم .

نکاح کی شرائط نفسیاتی اور سماجی مسائل
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔