"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ميں جوان ہوں اور شادى كرنے كا سوچ رہا ہوں، ليكن ميرے كچھ اشكال ہيں بيوى كى تلاش سے قبل ميں ان كے متعلق دريافت كرنا چاہتا ہوں: بيوى كے متعلق يہ پوچھنا چاہتا ہوں كہ دين والى عورت كون ہے جس كو اختيار كرنے كى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ترغيب دلائى ہے ؟
ميں يہ جانتا ہوں كہ جتنى بھى عورت عالمہ اور زاہدہ اور متقى اور دعوت دين دينے والى ہو گى اتنا ہى افضل و بہتر ہے ليكن اس سے كم كے متعلق كيا ہے مثلا كوئى عورت فرائض كى ادائيگى ميں كوتاہى كرتى ہو تو كيا اسے بھى دين والى شمار كيا جائيگا جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مراد لى ہے ؟
اور كيا چہرے كا پردہ نہ كرنے والى يا جس كى صرف آنكھيں ننگى ہوں دين والى شمار كى جائيگى ؟
دوسرے معنوں ميں يہ كہ: اگر نوجوان كے گھر والوں نے اس كے ليے اگر كوئى ايسى لڑكى اختيار كى جو فرائض كى ادائيگى تو كرتى ہو ليكن چہرے كا پردہ نہيں كرتى تو كيا اسے اس رشتہ سے انكار كرنے كا حق حاصل ہے كيونكہ يہ عورت دين والى نہيں ؟
الحمد للہ.
دين والى عورت سے نكاح كرنے كى وصيت اور دين والى عورت كون ہے ؟
ا ـ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دين والى عورت سے نكاح كرنے كى ترغيب دلاتے ہوئے فرمايا:
" عورت كے ساتھ چار اسباب كى بنا پر نكاح كيا جاتا ہے، اس كے مال و دولت كى وجہ سے، اور اس كے حسب و نسب كى بنا پر، اور اس كى خوبصورتى و جمال كى وجہ سے، اور اس كے دين كى بنا پر، چنانچہ تم دين والى كو اختيار كرو تيرا ہاتھ خاك ميں ملے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5090 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1466 ).
عبد العظيم آبادى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اور معنى يہ ہے كہ: دين اور مرؤت والى كے لائق ہے كہ ہر چيز ميں دين اس كا مطمع نظر ہو، خاص كر اس ميں جس ميں صحبت طويل ہوتى ہے، چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم ديا كہ دين والى كو اختيار كرو جو كہ ايك انتہائى چاہت ہے.
تيرا ہاتھ خاك ميں ملے: كہا جاتا ہے ترب الرجل يعنى افتقر يعنى آدمى فقير ہو گا، گويا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تم مٹى ميں مل جاؤ، يعنى دعاء مراد نہيں بلكہ جديت پر ابھارا گيا ہے، اور اس امر كى تلاش ميں كوشش كرنے كا كہا گيا ہے "
ديكھيں: عون المعبود ( 6 / 31 ).
ب ـ اور دين والى عورت كى صفات كے متعلق گزارش ہے كہ ہمارے ليے بہت سارى صفات كو ديكھنا ممكن ہے جس ميں وہ پائى جائيں تو اس عورت پر دين والى عورت ہونا صادق آتا ہے ان صفات ميں درج صفات شامل ہيں:
1 ـ حسن اعتقاد:
يہ ان سب صفات كے اوپر اور پہلى صفت ہے، چنانچہ جو عورت اہل سنت و الجماعت ميں سے ہو تو اس نے اپنے اندر دين والى كى سب سے اعلى اور قيمتى صفت ثابت كى، اور جو عورت اہل بدعت اور گمراہ قسم كے لوگوں ميں سے ہو تو وہ ان دين واليوں ميں شامل نہيں ہوتى جس سے نكاح كى ترغيب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم دلائى ہے؛ كيونكہ اس كا خاوند پر بھى اثر ہو گا اور اس كى اولاد پر بھى يا پھر دونوں پر ہى اثرانداز ہو سكتى ہے.
2 ـ خاوند كى اطاعت اور جب خاوند كوئى كام كہے تو اس كى مخالفت نہ كرنا:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسم سے دريافت كيا گيا:
كونسى عورت بہتر اور اچھى ہے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" وہ عورت جب خاوند اسے ديكھے تو وہ اسے خوش كر دے، اور جب حكم دے تو اس كى اطاعت كرے، اور اپنے مال اور نفس ميں كوئى ايسى مخالفت نہ كرے جو خاوند كو ناپسند ہو"
سنن نسائى حديث نمبر ( 3131 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
چنانچہ ايك صالح عورت ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بہتر اور اچھائى كى تين عظيم صفات جمع كر ديں اور وہ يہ ہيں:
پہلى:
جب خاوند اسے ديكھے تو اپنے دين اور اخلاق اور معاملات اور مظہر و لباس سے خوش كر دے.
دوسرى:
جب وہ گھر سے غائب اور سفر ميں ہو تو وہ اپنى عفت و عصمت اور عزت اور خاوند كے مال كى حفاظت كرے.
تيسرى:
جب خاوند اسے حكم دے تو وہ اس كى اطاعت دے جبكہ وہ حكم نافرمانى كا نہ ہو.
3 ـ ايمان اور دين ميں خاوند كى معاونت كرے، اور اسے نيكى و اطاعت كا حكم كرنے والى ہو، اور حرام كاموں سے روكے.
ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ جب سونے اور چاندى كے بارہ ميں آيات نازل ہوئيں تو صحابہ كرام نے عرض كيا: تو پھر ہم كونسا مال ركھيں ؟
عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: اس كے متعلق تمہارے ليے ميں دريافت كرتا ہوں، چنانچہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ اپنے اونٹ پر سوار ہوئے اور انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو جا ليا اور ان سے ملے تو ميں بھى ان كے پيچھے تھا عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہم كونسا مال ركھيں ؟
تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم ميں سے ايك شكر كرنے والا دل ركھے، اور ذكر كرنے والى زبان، اور مومن بيوى جو اسے آخرت كے معاملات ميں تعاون كرنے والى ہو "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 3094 ) ترمذى نے اسے حسن قرار ديا ہے، اور ترمذى كى روايت كے آخر ميں يہ الفاظ ہيں:
" اور وہ اس كے ايمان ميں معاونت كرنے والى ہو "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1856 ) اوپر والے الفاظ ابن ماجہ كے ہيں اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
مباركپورى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور مومن بيوى جو اس كے ايمان ميں معاونت كرنے والى ہو "
يعنى اس كے دين ميں معاونت كرے، اسے نماز ياد دلائے اور روزہ كے متعلق كہے اور اس كے دوسرى عبادات كى بھى ترغيب دلائے، اور اسے زنا اور باقى حرا اشياء سے روكے.
ديكھيں: تحفۃ الاحوذى ( 8 / 390 ).
4 ـ وہ عورت نيك و صالح ہو اور نيك و صالح عورت كى صفات ميں شامل ہے كہ وہ اپنے پروردگار كى مطيع ہو، اور اپنے خاوند كے مالى اور جانى حقوق ادا كرنے والى ہو چاہے خاوند غائب بھى ہو.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
تو نيك و صالح اور فرمانبردار عورتيں، خاوند كى عدم موجودگى ميں بہ حفاظت الہى نگہداشت ركھنے والياں ہيں النساء ( 34 ).
شيخ عبد الرحمن سعدى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
فالصالحات قانتات : يعنى اللہ كى اطاعت و فرمانبردارى كرنے والياں.
حافظات للغيب : يعنى اپنے خاوندوں كى اطاعت كرنے والياں، حتى كہ عورت خاوند كے غيب ہونے كے وقت بھى اپنے آپ كى حفاظت كرے، اور خاوند كے مال كى بھى حفاظت كرے، اور يہ اس وجہ سے كہ اللہ تعالى نے ان كى حفاظت فرمائى اور انہيں توفيق دى ہے نہ كہ يہ ان كى اپنى جانب سے ہے، كيونكہ نفس اور جان تو برائى كى طرف مائل كرنے اور ابھارنے والا ہے ليكن جو اللہ پر توكل كرے اللہ اس كے ہم و غم ميں اور اس كے دين و دنيا كے معاملات ميں كافى ہو جاتا ہے.
ديكھيں: تفسير السعدى ( 177 ).
سعد بن ابى وقاص رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" چار اشياء سعادت ميں شامل ہوتى ہيں: نيك و صالح عورت، اور وسيع رہائش، اور نيك و صالح پڑوسى، اور آرام دہ سوارى.
اور چار اشياء شقاوت و بدبختى ميں شامل ہوتى ہيں: برا پڑوسى، اور برى عورت، اور تنگ رہائش، اور برى سوارى "
اسے ابن حبان نے صحيح ابن حبان حديث نمبر ( 1232 ) ميں روايت كيا ہے اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 282 ) اور صحيح الترغيب حديث نمبر ( 1914 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" نيك و صالح بيوى وہ ہے جو اپنے نيك و صالح خاوند كى صحبت ميں بہت سال بسر كرتى ہے، اور يہ وہى متاع اور سامان ہے جس كے متعلق رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" دنيا كا بہترين مال و متاع مومن عورت ہے، اگر تم اسے ديكھو تو تجھے اچھى لگى اور خوش كر دے، اور اگر تم اسے حكم دو تو وہ تمہارى اطاعت كرے، اور اگر تم اس كے پاس نہ ہو تو وہ اپنے نفس و عزت كى اور آپ كے مال كى حفاظت كرے "
اور يہى وہ عورت ہے جس كا نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم ديا جب مہاجر صحابہ نے دريافت كيا كہ ہم كونسا مال ركھيں تو آپ نے فرمايا:
" ذكر كرنے والى زبان، اور شكر كرنے والا دل، اور نيك و صالح بيوى جو تمہارے ايمان ميں آپ كى معاونت كرنے والى ہو "
اسے امام ترمذى نے سالم بن ابى جعد عن ثوبان كے طريق سے روايت كيا ہے.
اور اس بيوى كى جانب سے محبت و مودت اور مہربانى حاصل ہو جس كا اللہ عزوجل نے اپنى كتاب عزيز قرآن مجيد ميں بطور احسان ذكر كيا ہے، چنانچہ اس عورت كے ليے بعض اوقات خاوند سے جدائى كى تكليف موت سے بھى زيادہ ہو، اور وہ اسے مال كھو جانے اور وطن كى جدائى سے بھى زيادہ محسوس كرے، خاص كر اگر ان دونوں ميں كوئى تعلق ہو، يا پھر ان كے بچے اور اولاد ہوں جو جدائى اور عليحدگى كى حالت ميں ضائع ہو جائيں اور ان كى حالت خراب ہو "
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 35 / 299 ).
5 ـ حسن ادب اور علم ركھنے والى ہو:
ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تين قسم كے افراد كے ليے ڈبل اجر ہے: ايك وہ شخص جو اہل كتاب ميں سے ہو اور اپنے نبى پر بھى ايمان لايا اور پھر محمد صلى پر بھى ايمان لايا، اور وہ غلام جو اللہ كا بھى حق ادا كرے اور اپنے مالك كا بھى حق ادا كرتا ہو، اور وہ شخص جس كے پاس لونڈى ہو اور وہ اس كى اچھى تربيت كرے اور اچھا ادب سكھائے، اور اس كو تعليم دى اور اچھا علم سكھائے پھر اس كو آزاد كر كے اس سے شادى كر لے تو اسے ڈبل اجر ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 97 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 154 ).
اور مباركپورى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" فادبھا " يعنى اس نے اسے اچھى خصلتيں سكھائيں جو خدمت كے آداب ميں سے ہيں؛ كيونكہ ادب يہ ہے كہ: اٹھنے بيٹھنے كے حالات كى عادات اچھى ہوں، اور اخلاق بھى اچھا ہو.
فاحسن ادبھا: بخارى و مسلم كى روايت ميں ہے: فاحسن تاديبھا " اور " احسان تاديبھا " كہ اسے رفق و نرمى اور لطف كى تعليم دى، اور شيخين كى روايت ميں يہ اضافہ ہے: اور اسے تعليم دى تو اسے اچھى اور بہتر تعليم دى "
ديكھيں: تحفۃ الاحوذى ( 4 / 218 ).
6 ـ اطاعت و فرمانبردارى كرنا اور حرام كردہ اشياء سے اجتناب كرنا:
اور يہ " دين والى ہو " كے معنى ميں شامل ہے جو صحيح حديث ميں وارد ہے جس حديث كا ہم جواب كى ابتدا ميں ذكر كر چكے ہيں.
خطيب شربينى شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يہاں دين سے مراد اطاعت و فرمانبردارى اور نيك و صالح اعمال اور حرام كاموں سے اجتناب اور عفت و عصمت ہے.
ديكھيں: المغنى المحتاج ( 3 / 127 ).
بلكہ جس عورت ميں واجبات و فرائض پر عمل اور اللہ كى طرف سے حرام كردہ امور سے اجتناب كر كے اپنے پروردگار كى اطاعت، اور اپنے خاوند كى اطاعت و فرمانبردارى دونوں چيزيں جمع ہوں تو اس عورت كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جنت ميں داخل ہوتے وقت بہت بلند عزت و تكريم كى خوشخبرى سنائى ہے.
حديث ميں ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب عورت نماز پنجگانہ كى پابندى كرتى ہو، اور رمضان كے روزے ركھتى ہو، اور اپنى عفت و عصمت كى حفاظت كرتى ہو، اور اپنے خاوند كى اطاعت كرے تو اسے كہا جائيگا تم جس دروازے سے چاہو جنت ميں داخل ہو جاؤ "
مسند احمد حديث نمبر ( 1664 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب ميں اسے حسن لغيرہ كہا ہے، اور اسى طرح مسند احمد كى تخريج ميں شيخ ارناؤوط نے بھى.
7 ـ وہ عورت عابدہ و زاہدہ اور روزے ركھنے والى ہو.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اگر وہ ( پيغمبر ) تمہيں طلاق دے ديں تو بہت جلد انہيں كا رب تمہارے بدلے تم سے بہتر بيوياں عنائت فرمائيگا، جو اسلام والياں، ايمان والياں، اللہ كے حضور جھكنے والياں، توبہ كرنے والياں، عبادت بجا لانے والياں، روزے ركھنے والياں ہونگى بيوہ اور كنوارياں التحريم ( 5 ).
بغوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
ان يبدلہ ازواجا خيرا منكن مسلمات :
جو اطاعت كر كے اللہ كے سامنے جھكنے اور عاجزى كرنے والياں ہونگى.
مومنات : اللہ كى توحيد كى تصديق كرنے والياں ہونگى.
قانتات : اطاعت كرنے والياں، اور يہ بھى كہا گيا ہے كہ: دعوت دينے والياں، اور يہ بھى كہا گيا ہے: نماز ادا كرنے والياں.
سائحات : روزے ركھنے والياں، اور زيد بن اسلم كہتے ہيں: ہجرت كرنے والياں، اور ايك قول يہ بھى ہے: جہاں وہ جائيں ان كے ساتھ جانے والياں.
ديكھيں: تفسير البغوى ( 8 / 168 ).
اس پتہ چل جاتا ہے كہ كلمہ " دين " ايك جامع كلمہ ہے جو عبادات كى سب اقسام اور اطاعت كى ہر قسم كو شامل ہے، اور اس ميں سب اخلاق و شمائل و عادات شامل ہوتى ہيں، يہاں ايك تنبيہ كرنا ضرورى ہے كہ:
اوپر ہم جو اوصاف و افعال بيان كيے ہيں ان ميں سب عورتيں ايك جيسى نہيں، بلكہ ان ميں درجات ہيں كسى ميں كم اور كسى ميں زيادہ جيسا كہ سب كو معلوم بھى ہے اور مشاہدہ بھى كيا گيا ہے، اس ليے عورت جتنى زيادہ شرم و حياء والى اور جتنى زيادہ علم و عبادت والى ہو گى وہ زيادہ قريب ہے كہ اسے نكاح كے ليے اختيار كيا جائے.
بہر حال دين والى عورت وہ ہے جو آدمى كے دين كى حفاظت كرے، اور اس كى آخرت ميں معاونت كرنے والى ہو، اور جب خاوند اسے ديكھے تو اسے خوش كر دے، اور جب خاوند غائب ہو تو اس كے مال اور اپنى عزت و عصمت كى حفاظت كرے، اور اس كى اولاد كى اچھى اور بہتر تربيت كرے.
اور اگر كسى دين والى لڑكى كا رشتہ ہو ليكن وہ خوبصورت نہيں تو اس مسئلہ كو سمجھنے كے ليے اور اس سوال كے جواب كى تكميل كے ليے آپ سوال نمبر ( 83777 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .