اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

عدم جماع كى شرط پر شادى كرنا

02-05-2010

سوال 97478

كيا دين اسلام ميں خاوند اور بيوى كے ليے جنسى تعلقات قائم كيے بغير ـ چاہے ايك بار ہى ـ اكٹھے رہنا جائز ہے، كہ وہ دونوں دوستوں كى طرح رہيں، اور اس بيوى كى اسلام ميں حالت كيا ہو گى ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

شريعت اسلاميہ ميں جائز نہيں كہ ايك ہى گھر ميں اجنبى مرد اور عورت اكٹھے رہيں، اسى ليے خاوند اور بيوى كا جماع اور جنسى تعلقات قائم كيے بغير اكٹھے رہنے كو دوستوں كے ساتھ تشبيہ دينا صحيح نہيں.

دوم:

خاوند اور بيوى كے علم ميں ہونا چاہيے كہ نكاح كے عظيم مقاصد ميں شرمگاہ كى حفاظت، اور نفس كى عفت و عصمت اور اولاد كا وجود شامل ہے، اور جماع اور جنسى تعلقات قائم كيے بغير يہ اشياء حاصل ہى نہيں ہو سكتيں.

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى ايسى عورت سے شادى كرنے كى ترغيب دلائى ہے جو زيادہ بچے پيدا كرنے والى ہو، بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو اپنے بعض صحابہ كو بانجھ عورت سے نكاح كرنے سے ہى منع فرما ديا تھا.

معقل بن يسار رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

ايك شخص رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور عرض كرنے لگا:

مجھے ايك حسب و نسب والى عورت ملى ہے، ليكن وہ بچے پيدا نہيں كر سكتى كيا ميں اس سے شادى كر لوں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے روك ديا، اور وہ دوسرى بار پھر آيا تو بھى آپ نے اسے منع كر ديا، پھر وہ تيسرى بار آيا تو بھى آپ نے اسے روك ديا، اور فرمايا:

" ايسى عورت سے شادى كرو جو زيادہ بچے جنتى ہو اور زيادہ محبت كرنے والى ہو، كيونكہ ميں تمہارى كثرت سے امتوں پر فخر كرونگا "

سنن نسائى حديث نمبر ( 3227 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2050 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 1921 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اس حديث كى شرح ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 32668 ) كا مطالعہ كريں، اور سوال نمبر ( 13492 ) كے جواب كو بھى ديكھيں.

رہا يہ مسئلہ كہ ايك ہى گھر ميں خاوند اور بيوى بغير جماع اور جنسى تعلقات قائم كيے رہنا تو اس كا تصور تو اس صورت ميں ہو سكتا ہے اور اس كو جائز اس صورت ميں كہا جا سكتا ہے كہ جب دونوں خاوند اور بيوى مريض ہوں، يا پھر بڑى عمر كے ہوں جنہيں جماع كى شہوت ہى نہ رہے.

ليكن اگر انہيں جماع كى شہوت آتى ہو تو پھر وہ ايك دوسرے كو عفت و عصمت كيسے دے سكتے ہيں ؟ اور ہر ايك اگر حلال كردہ ميں شہوت پورى نہيں كرتا تو اپنى شہوت كہاں پورى كريگا ؟!

اسى طرح اس كا تصور اور جواز كا قول تو اسى صورت ميں ممكن ہے كہ عورت نوجوان ہو اور اس كو شہوت بھى ہو، اور كسى ايسے مرد سے شادى پر راضى ہو جائے جو جنسى طور پر عاجز ہو يا بڑى عمر كا ہو، اور اسى طرح اس كے برعكس مرد جوان ہو اور غير شہوت والى عورت سے شادى كر لے يا مريض سے اور وہ صبر كى استطاعت ركھتا اور اجرثواب كى نيت ركھے.

يا پھر اس كى اور بھى بيوياں ہوں جن سے وہ شہوت پورى كر ليا كرے.

سوم:

اس باب ميں فقھاء كرام نے ان دونوں مسئلوں ميں فرق كيا ہے:

پہلا:

عقد نكاح ميں شرط ركھى جائے كہ دونوں ميں جماع حلال نہيں ہو گا، تو يہ شرط باطل ہے، اور جمہور علماء كے ہاں يہ عقد نكاح ہى باطل ہوگا.

دوسرا:

عقد نكاح ميں شرط ركھى جائے كہ دونوں ميں جماع نہيں ہوگا، يہ مسئلہ تفصيل طلب ہے: اور راجح قول يہ ہے كہ عقد نكاح صحيح ہوگا اور شرط باطل ہوگى، اس شرط كا كوئى اعتبار نہيں كيا جائيگا، اور نہ ہى اس شرط كى كوئى قدر و قيمت ہو گى، چاہے يہ شرط خاوند كى جانب سے ہو يا پھر بيوى كى جانب سے، يا دونوں كى جانب سے.

الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:

" فقھاء كرام نے دونوں حالتوں ميں يہ شرط لگانے ميں فرق كيا ہے، جماع حلال ہونے كى نفى كى شرط كى حالت ميں، اور جماع نہ كرنے كى شرط لگانے كى حالت ميں:

اس كى تفصيل درج ذيل ہے:

اگر عقد نكاح ميں شرط ركھى جائے كہ وطئ حلت كى نفى ہو گى، يعنى وہ اس شرط پر شادى كريگا كہ وہ عورت اس كے ليے حلال نہيں ہے، تو اس شرط كے باطل ہونے ميں علماء كا كوئى اختلاف نہيں، ليكن وہ اس شرط كا نكاح پر اثرانداز ہونے ميں اختلاف كرتے ہيں كہ آيا اثرانداز ہو گى يا نہيں:

اس ميں دو قول ہيں:

پہلا قول:

جمہور فقھاء جس ميں شافعى مالكى اور حنابلہ شامل ہيں كے ہاں عقد نكاح اور شرط دونوں ہى باطل ہيں؛ كيونكہ يہ شرط نكاح كے مقصد ميں مخل ہو رہى ہے، اور اس كے مناقض ہے، كيونكہ اس شرط كے ہوتے ہوئے شادى كا كوئى معنى ہى نہيں رہ جاتا، بلكہ يہ تو صورى عقد كى طرح ہو جائيگا.

دوسرا قول:

احناف كا قول ہے كہ: شرط فاسد ہے اور عقد نكاح صحيح ہو گا؛ كيونكہ احناف كے ہاں قاعدہ ہے كہ فاسد شرط كے ساتھ نكاح فاسد نہيں ہوتا، بلكہ صرف شرط فاسد ہو گى.

ليكن اگر وہ عقد نكاح ميں عدم وطئ اور عدم جماع كى شرط لگاتا ہے تو اس كے حكم ميں فقھاء كا اختلاف پايا جاتا ہے جس ميں ان كے تين قول ہيں:

پہلا قول:

حنفيہ اور حنابلہ كہتے ہيں كہ عقد نكاح صحيح ہوگا اور شرط فاسد ہو گى، شرط اس ليے باطل ہو گى كہ يہ عقد نكاح كے مقتضى كے خلاف ہے، اور يہ ايسے حقوق ساقط كرنے كو اپنے ضمن ميں ليے ہوئے ہے جو صرف عقد نكاح سے واجب ہو جاتے ہيں، چاہے ان كى شرط نہ بھى ركھى جائے.

اور عقد نكاح اس ليے باقى رہےگا كہ يہ شرط تو عقد نكاح ميں ايك زائد معنى ركھتى ہے اس ليے يہ شرط عقد نكاح كو باطل نہيں كريگى.

اور احناف كے ہاں يہ قاعدہ ہے كہ:

فاسد شرط كے ساتھ نكاح فاسد نہيں ہوگا، بلكہ نكاح كے علاوہ شرط ہى فاسد ہى گى.

دوسرا قول:

مالكيہ كے ہاں شرط اور عقد نكاح دونوں فاسد ہيں، كيونكہ يہ نكاح ايسے طريقہ پر ہو رہا ہے جو شرعى طور پر منع ہے.

پھر مالكيہ كے ہاں اس ميں اختلاف پايا جاتا ہے كہ اگر ايسا ہو جائے تو اس پر كيا مرتب ہوگا:

ايك قول يہ ہے كہ رخصتى سے قبل اور رخصتى كے بعد دونوں حالتوں ميں ہى نكاح فسخ ہو گا.

اور ايك قول يہ ہے كہ: رخصتى اور دخول سے قبل فسخ ہو گا، اور دخول كے بعد نكاح ثابت ہو جائيگا ليكن شرط ساقط ہو جائيگى، اور مشہور يہى ہے.

تيسرا قول:

شافعى حضرات كے ہاں يہ ہے كہ: اگر وطئ اور جماع نہ كرنے كى شرط پر نكاح كيا، يا اس شرط پر نكاح ہوا كہ صرف دن ميں ہى وطئ اور جماع كريگا، يا پھر صرف ايك بار، اگر تو يہ شرط بيوى كى جانب سے ہو تو يہ نكاح باطل ہو جائيگا؛ كيونكہ يہ چيز نكاح كے مقصد كے منافى ہے، اور اگر اس كى جانب يعنى خاوند كى جانب سے ہو تو كوئى ضرر نہيں؛ كيونكہ وطئ اور جماع اس كا حق ہے، اور اسے ترك كرنے كا حق حاصل ہے، اور اس پر ممكن بنانا يہ بيوى كا حق ہے، اس ليے بيوى كے ليے اسے ترك كرنے كا حق حاصل نہيں " انتہى

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 44 / 45 ).

چہارم:

عورت كو چاہيے كہ وہ ايسى شادى پر راضى مت ہو، اور مرد كو بھى چاہيے كہ اگر عورت ايسى رغبت ركھتى ہے كہ ان ميں جماع نہيں ہو گا تو وہ اس شادى كى موافقت مت كرے، اور دونوں كو علم ہونا چاہيے كہ يہ چيز فطرت سليمہ كے مخالف ہے، اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے تو مرد ميں عورت كى طرف ميلان پيدا فرمايا ہے، اور عورت ميں بھى مرد كى جانب ميلان ركھا ہے.

ايسے لوگ بھى ہيں جو اپنى شہوت حرام ميں صرف كرتے ہيں، اور كچھ ايسے بھى ہيں جو حلال ميں صرف كرتے ہيں، اور اللہ كى شريعت ميں شادى ايك ايسى چيز ہے جس ميں اللہ نے مرد اور عورت كا ملاپ مباح كيا ہے، اور ان ميں الفت و محبت اور مودت و رحمت بنائى ہے، اور ان دونوں ميں سے اولاد بنائى ہے.

فرمان بارى تعالى ہے:

اللہ تعالى نے تمہارے ليے تم ميں سے ہى تمہارى بيوياں پيدا كيں، اور تمہارى بيويوں سے تمہارے ليے تمہارے بيٹے اور پوتے پيدا كيے، اور تمہيں پاكيزہ رزق ديا، تو كيا وہ باطل پر ايمان لاتے اور اللہ كى نعمتوں كا انكار كرتے ہيں النحل ( 72 ).

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

اور اس كى نشانيوں ميں سے ہے كہ تمہارى ہى جنس سے بيوياں پيدا كيں تا كہ تم ان سے آرام و راحت پاؤ، اس نے تمہارے درميان محبت و ہمدردى قائم كر دى، يقيناً غور و فكر كرنے والوں كے ليے اس ميں بہت سى نشانياں ہيں الروم ( 21 ).

اور پھر شادى تو سب رسول اور انبياء عليہم السلام جو كہ سب سے افضل و اعلى ہيں كى بھى سنت ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

ہم آپ سے پہلے بھى بہت سارے رسول بھيج چكے ہيں اور ہم نے ان سب كو بيوى بچوں والا بنايا تھا الرعد ( 38 ).

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

اس جگہ زكريا عليہ السلام نے اپنےرب سے دعا كى اور كہا كہ اے ميرے پروردگار مجھے اپنے پاس سے پاكيزہ اولاد عطا فرما بے شك تو دعا كا سننے والا ہے آل عمران ( 38 ).

واللہ اعلم .

شادی کے احکام
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔