"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
بلاشك و شبہ بہت سارے اسلامى معاشرے جن ميں مصرى معاشرہ بھى شامل ہے ايك سے زائد شادياں كرنے كو پہلى بيوى سے خيانت كى نظر سے ديكھتے ہيں، يا پھر خاوند اور دوسرى بيوى كے ليے اسے عيب تصور كيا جاتا ہے، حالانكہ اس نظريہ اور تصور كے غلط ہونے ميں كوئى شك و شبہ نہيں كيونكہ يہ نظريہ اور تصور شريعت مطہرہ كے مخالف ہے.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے تو آدمى كے ليے چار بيوياں ركھنا مباح كرتے ہوئے فرمايا ہے:
تو تم كو جو عورتيں اچھى لگيں دو دو تين تين اور چار چار سے نكاح كرو النساء ( 3 ).
اور پھر كسى بھى مسلمان شخص كے ليے اللہ تعالى كے حكم پر اعتراض كرنا ہى ممكن نہيں، يا پھر اس كے ليے يہ گمان كرنا بھى جائز نہيں كہ يہ ظلم و زيادتى اور شرعى حكم غلط ہے.
اس ليے ہم آپ كے اس قول كى موافقت نہيں كرتے آپ نے كہا ہے:
" ميں كس طرح ايك خاوند كو اس كى بيوى اور بچوں سے چھين سكتى ہوں "
آپ اس خاوند كو چھين نہيں رہيں، بلكہ اس شخص نے خود اپنى رضا و خوشى اور اختيار سے آپ كا رشتہ طلب كيا ہے.
پھر وہ شخص دو گھروں اور خاندانوں كا بوجھ برداشت كريگا، اور پہلى بيوى كو آپ كى وجہ سے چھوڑ تو نہيں رہا تو پھر اسے چھيننا كيسے قرار ديا جا سكتا ہے؟!
رہا پہلى بيوى كا نظريہ تو يہ چيز عورتوں كى فطرت ميں شامل ہے عموما عورتيں اس ميں غيرت كھاتى ہيں، اور عورت يہ نہيں چاہتى كہ اس كے ساتھ كوئى اور بيوى بھى شريك ہو بلكہ وہ تو چاہتى ہے كہ وہ اپنے خاوند كى اكيلى بيوى رہے.
يہ عام عورتوں ميں ہى نہيں بلكہ امت كى سب سے اعلى اور افضل عورتوں امھات المومنين سے غيرت كى بنا پر اس سلسلہ ميں كچھ نہ كچھ صادر ہو جايا كرتا تھا، ليكن رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ان سے تجاوز كر جاتے.
اس طرح كے موقع پر خاوند كو حكمت سے كام لينا چاہيے تا كہ اختلافات اور جھگڑا زيادہ نہ ہو.
آپ نے دريافت كيا ہے كہ: آيا ميں اس شادى كو قبول كر لوں يا كہ صبر سے كام لوں ہو سكتا ہے اللہ تعالى كوئى اور رشتہ پيدا كر دے ؟
اس سلسلہ ميں ہمارا جواب اور نصيحت يہى ہے كہ: اگر آپ كو اميد ہے كہ آپ كو اس سے بہتر اور اچھا رشتہ مل جائيگا تو اس رشتہ كے انكار كرنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اگر يہ خدشہ ہو كہ عمر زيادہ ہونے اور آپ كى خصوصى وجوہات كى بنا پر اس سے بہتر رشتہ نہيں آئيگا، بلكہ اس جيسا اور رشتہ بھى نہيں ملےگا تو پھر ہمارى رائے يہى ہے كہ آپ اس رشتہ كو قبول كرتے ہوئے شادى كر ليں. باقى علم تو اللہ كے پاس ہے.
اور يہ بات كہ عورت كاد وسرى بيوى بننے پر راضى ہونا اور پہلى بيوى كى جانب سے كچھ تكليف كا حصول اور اسے برداشت كرنا، اور معاشرے ميں لوگوں كى باتيں سننا بغير شادى كے رہنے سے بہت ہى زيادہ آسان ہے.
ہم اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا گو ہيں كہ وہ آپ كے ليے خير و بھلائى ميں آسانى پيدا كرے.
واللہ اعلم .